کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 27
کا منصب ان آیات میں بیان کیا ہے:
﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ (النحل:44)
’’اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کر دیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔‘‘
دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ آپ کے منصب کو بیان کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ﴾
’’ہم نے آپ پر کتاب اس لیے اتاری ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کریں جس میں انہوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔‘‘ (النحل:64)
ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں ہے جو ایک بند لفافہ مکتوب الیہ تک پہنچا دے، بلکہ آپ کا منصب یہ ہے کہ آپ نے اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئینِ زندگی کی وضاحت کرنی ہے جو انہیں دیا گیا ہے، آپ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اپنے فہم و عقل کے ذریعے سے کلام الٰہی کی مراد کو نہیں پا سکتا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰه أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب:21)
’’تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات گرامی میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘
اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن مجید کی مجسم تفسیر ہے۔ اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکامات پر عمل کیا جائے، یہی بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمائی تھی جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار کے متعلق سوال کیا تھا، آپ نے بایں الفاظ اس سوال کا جواب دیا تھا:
’’ فإنَّ خُلُقَ رسولِ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم كانَ القرآنَ ‘‘
’’بےشک یہ قرآن ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔‘‘ (صحیح مسلم: 746) خلق میں اقوال