کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 26
پن کا باعث ہے۔‘‘ (حم السجدۃ:44) قرآن مجید کیا ہے؟ علمائے اصول نے اس کی تعریف بایں الفاظ کی ہے: ’’قرآن مجید سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے، جس کی ایک ایک سورت اپنی جگہ پر ایک معجزے کی حیثیت رکھتی ہے وہ قرآن جس کی تلاوت عبادت ہے، جو نسخوں میں لکھا ہوا ہمارے پاس موجود ہے اور ایک تواتر کے ساتھ صحابہ کرام سے لے کر آج تک مصاحف کی شکل میں نقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔‘‘ اس تعریف میں قرآن مجید کا ابتدائی تعارف یہ ہے کہ وہ کلام جو اللہ کی طرف سے اتارا گیا ہے، اب چونکہ اللہ کی طرف سے اتارے جانے کا ذریعہ وحی رہی ہے، لہٰذا قرآن مجید کا مصدر و منبع اور ماخذ وحی الٰہی ہے، اس سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ بھی ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔ ﴿وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٩٢﴾ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴿١٩٤﴾ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ﴿١٩٥﴾ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ ﴿١٩٦﴾ ’’اور بےشک یہ قرآن رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے اسے ایک امانتدار فرشتہ لے کر آیا ہے، یہ آپ کے دل پر اترا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں۔ یہ صاف عربی زبان میں ہے، سابقہ انبیاء کی کتابوں میں بھی اس قرآن کا تذکرہ ہے۔ (الشعراء:192 تا 196) بلاشبہ قرآن عربی مبین میں نازل ہوا ہے اور اس کے اولین مخاطب حجاز کے عرب تھے جنہیں اپنی زبان دانی، فصاحت و بلاغت پر بہت ناز تھا، وہ دوسروں کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے، لیکن یہ قرآن عربی ہونے کے باوجود اسے محض لغت سے نہیں سمجھا جا سکتا تھا، اس لیے اس کی تعلیمات کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبر کو مبعوث فرمایا جس نے علمی اور عملی ہر دو اعتبار سے اس کے مطالب کو واضح کیا، اس اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے پہلے معلم اور مفسر ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم