کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 255
بےغبار ہیں، اس لیے فکر اور فلسفے کی اس آنکھ مچولی کو اس کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا، آپ زمانے کے جس نظریہ سے مرعوب ہو کر قرآن کریم کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے، ہو سکتا ہے کہ وہی نظریہ عہدِ جہالت کی یادگار ثابت ہو اور آپ اسے زبان پر لاتے ہوئے بھی شرمانے لگیں۔
راسخ العقیدہ اہل علم کا یہ طرزِ فکر تجربے سے بالکل سچا ثابت ہوا، آج فلسفہ اور سائنس کی ترقیات نے یونانی فلسفے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور اس کے نہ صرف بہت سے طبعی، عنصری اور فلکیاتی نظریات غلط قرار پا گئے۔ بلکہ ان کی بنیاد پر مابعد الطبیعی (Metaphysical) نظریات کی جو عمارت اٹھائی گئی تھی وہ بھی زمین بوس ہو چکی ہے، جن لوگوں نے یونانی فلسفے کی چمک دمک سے خیرہ ہو کر قرآن و سنت کو موم کی ناک بنایا تھا، آج اگر وہ زندہ ہوتے تو یقیناً ان کی ندامت و شرمندگی کی کوئی انتہا نہ رہتی۔
لیکن حیرت ہے کہ سطحیت پرستوں کا ایک گروہ تاریخ سے کوئی سبق لینے کے بجائے مغربی افکار سے متأثر مرعوب ہو کر قرآن و سنت کی ایسی تفسیر گھڑنے کی فکر میں ہے، جو مغرب کے چلے ہوئے نظریات پر فٹ ہو سکے۔ یہ گروہ تفسیر کے تمام معقول اور معروف اصولوں کو توڑ کر صرف ایک اصول کی بنیاد پر قرآن کریم کے ساتھ مشقِ ستم میں مصروف ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ اللہ کے اس کلام کو کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر مغربی افکار کے مطابق بنا دیا جائے۔ یہ لوگ کبھی یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ جس کلام پر وہ تأویل و تحریف کی مشق کر رہے ہیں وہ کس کا کلام ہے؟ جن نظریات کی وہ خاطر وہ اللہ کے کلام میں کھینچا تانی کر رہے ہیں وہ کتنے پائیدار ہیں؟ اور جب انسانی فکر کا قافلہ ان نظریات کو روند کر آگے بڑھے گا تو اس قسم کی تفسیروں اور تشریحات کا کیا حشر ہو گا؟ [1]
[1] علوم القرآن، تقي عثماني: ص 372-376