کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 254
گرم رہا اور فریقین کی طرف سے اپنے اپنے مؤقف کی تائید میں پورے کتب خانے تیار ہو گئے۔ پختہ کار علماء دین کا مؤقف یہ تھا کہ قرآن کریم کسی انسان کی نہیں اس خالقِ کائنات کی کتاب ہے جو اس دنیا اور اس میں ہونے والے واقعات کی رتی رتی سے باخبر ہے اور اس دنیا کے بدلتے ہوئے حالات سے اس سے زیادہ کوئی باخبر نہیں ہو سکتا، لہٰذا قرآن کریم کی تعلیمات اور اس کے بیان کردہ حقائق سدا بہار اور ناقابلِ ترمیم ہیں، جن احکام و قوانین اور نظریات پر زمانے کی تبدیلی اثر انداز ہو سکتی تھی، ان کے بارے میں قرآن کریم نے خود کوئی معین بات کہنے کے بجائے ایسے جامع اصول بیان فرما دیے ہیں جو ہر تبدیلی کے موقع پر کام آ سکیں اور ان کی روشنی میں ہر بدلے ہوئے ماحول میں راہ نمائی حاصل کی جا سکے، لیکن جو باتیں قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان فرما دی ہیں یا جن کی واضح تفسیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، وہ زمانے کی تبدیلی سے بدلنے والی باتیں نہیں ہیں۔ فلسفہ اور سائنس کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس کے وہ بیشتر نظریات جو قطعی مشاہدے پر مبنی نہیں ہیں، مختلف زمانوں میں بدلتے رہے ہیں اور جس زمانے میں جو نظریہ رائج رہا وہ لوگوں کے ذہن فکر پر اس بری طرح چھا گیا کہ لوگ اس کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، لیکن جب زمانے کے کسی انقلاب نے اس نظریے کی کایا پلٹی تو وہی نظریہ اتنا بدنام ہوا کہ اس کو منہ سے نکالنا بھی دقیانوسیت کی علامت بن گیا، اب اس کی جگہ کسی نئے نظریے نے ذہنوں پر اپنا سکہ بٹھایا اور اس کی گھن گرج نے ہر مخالف رائے کا گلا گھونٹ دیا، پھر ایک عرصہ گزرنے پر یہ نیا نظریہ بھی اپنی آن بان کھو بیٹھا اور کسی تیسرے نظریے نے اس کی جگہ لے لی، فکر انسان کی تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے اور جب تک حقیقت کی تلاش انسان کو قطعی مشاہدے تک نہیں پہنچا دیتی اس وقت تک یہی ہوتا رہے گا، اس کے برخلاف قرآن کریم نے جن حقائق کی طرف واضح راہ نمائی فرمائی ہے، وہ چونکہ ایک ایسی ذات کے بیان کیے ہوئے ہیں جس کے سامنے یہ پوری کائنات اور اس میں ہونے والے حوادث ہاتھ کی ہتھیلی سے زیادہ واضح اور