کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 253
تاریخِ اسلام کے ہر دور میں ایسے افراد کی ایک جماعت موجود رہی ہے، جو قرآن و سنت کے علوم میں پختگی پیدا کیے بغیر اپنے زمانے کے فلسفے کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ فلسفہ ان کے ذہنوں پر ایسا بری مسلط ہو گیا کہ وہ اس کے بتائے ہوئے فکرونظر کے دائروں سے باہر نکلنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو گئے، اس کے بعد جب انہوں نے قرآن کریم کی طرف رجوع کیا اور اس کی بہت سی باتیں انہیں اپنے آئیڈیل فلسفے کے خلاف محسوس ہوئیں تو انہوں نے اس فلسفے کو جھٹلانے کے بجائے قرآن کریم میں تحریف و ترمیم شروع کر دی اور اس کے الفاظ کو کھینچ تان کر اپنے فلسفیانہ افکار کے مطابق بنانا شروع کر دیا۔ جب مسلمانوں میں یونانی فلسفے کا چرچا ہوا اور لوگوں نے قرآن و سنت کے علوم میں پختگی پیدا کیے بغیر اس فلسفے کو حاصل کرنا شروع کیا، تو یہی فتنہ پیش آیا اور بعض لوگ جو یونانی فلسفے سے بری طرح مرعوب ہو گئے تھے، قرآن کریم کو توڑ موڑ کر اس فلسفے کے مطابق بنانے کی کوشش میں لگ گئے۔ ان میں بہت سے لوگ مخلص بھی تھے اور سچے دل سے یہ سمجھتے تھے کہ یونانی فلسفہ ناقابل تردید ہے اور قرآن و سنت کی متوارث تفسیر اس کے لائے ہوئے فکری سیلاب کا مقابلہ نہیں کر سکے گی، اس لیے اس تفسیر کو بدل کر قرآن و سنت کی ایسی تشریح کرنی چاہیے جو یونانی فلسفے کے مطابق ہو، لیکن درحقیقت یہ ان کی قرآن و سنت اور اسلام کے ساتھ ایک نادان دوستی تھی، جس نے اسلام کی کوئی خدمت کرنے کے بجائے مسلمانوں میں نظریاتی انتشار برپا کیا اور معتزلہ اور جہمیہ جیسے بہت سے نئے فرقے پیدا کر دئیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پختہ کار علمائے دین جنہیں قرآن و سنت کے علوم میں رسوخ تھا اور جو قرآن و سنت کے مقابلے میں وقت کے کسی چلے ہوئے نظام فکر سے مرعوب نہیں تھے، ان کی ایک بڑی جماعت کو دوسرے کام چھوڑ کر ایسے لوگوں کی تردید میں مصروف ہو جانا پڑا اور انہوں نے یونانی فلسفے کی فکری غلطیوں کی نشاندہی کر کے ایسے لوگوں کی مدلل اور مفصل تردید کی جو اس فلسفے کے اثر سے قرآن و سنت میں معنوی تحریف کے مرتکب ہوئے تھے، غرض ایک عرصے تک فکری مباحث اور تصنیف و مناظرہ کا بازار