کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 231
معتزلہ کے معروف امام زمخشری عقل کو ’’سلطان‘‘ کا لقب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’امش في دينك تحت راية السلطان، ولا تقنع بالرواية عن فلان و فلان‘‘ [1]
’’اپنے دین میں عقل کے جھنڈے کے نیچے گامزن رہو، فلاں اور فلاں سے روایت پر قناعت نہ کرو۔‘‘
دوسرا اصول: مذعومہ عقائد اور عقل کے خلاف ہر چیز کی تأویل یا انکار
معتزلہ اپنے مذعومہ عقائد اور عقل کے خلاف پڑنے والی ہر نص کی تاویل کرتے ہیں۔ چاہے وہ آیت قرآنی ہو یا حدیث رسول۔
اس کی چند ایک واضح مثالیں ملاحظہ ہوں:
پہلی مثال: آیاتِ رؤیت کی تأویل
رؤیتِ باری تعالیٰ پر دلالت کرنے والی تمام آیات کی تاویل کرتے ہیں۔
﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴿٢٣﴾﴾ (القیامہ:22-23) کی تفسیر میں قاضی عبدالجبار [2]لکھتے ہیں:
’’اس سے مراد رؤیت نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھنا اس بات کو مستلزم ہے کہ آنکھیں کسی چیز پر مرتکب ہوں اور ارتکاز کسی جسم پر ہی ممکن ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے بری ہے، لہٰذا اس کی تاویل یہ ہے کہ اپنے رب کے ثواب کو دیکھ رہے ہوں گے۔[3]
[1] اطواق الذهب في المواعظ والخطب، للزمخشري، ص 28 (مقاله 37)
[2] قاضی عبدالجبار: ابوالحسن عبدالجبار بن احمد الھمدانی (المعتزلی)۔ معتزلہ کے معروف عالم ہیں۔ عہد بنی بویہ میں منصب قضاء پر فائز رہے۔ ’’متشابہ القرآن‘‘ اور ’’تنزیہ المطاعن عن القرآن‘‘ ان کی معروف تصانیف ہیں اور مطبوع و متداول ہیں۔ 415ھ میں فوت ہوئے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: مقدمہ تحقیق کتاب ’’متشابہ القرآن‘‘ للقاضی عبدالجبار، تحقیق: عدنان زرزرو، 1/8)
[3] تنزيه القرآن عن المطاعن، القاضي عبدالجبار، ص 442