کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 211
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اہل مکہ سے فرمایا کرتے تھے: ’’ تجتمعون عليٰ وعندكم عطاء؟‘‘ [1] ’’تمہارے پاس عطاء موجود ہے اور تم میری طرف چلے آتے ہو؟‘‘ لیکن تفسیرِ قرآن میں رائے دینے سے گریز کرتے تھے۔ عطاء کے شاگرد رشید ابن جریج کے بقول: ’’كنت أسأَل عَطاء عَن كل شَيْء يُعجبنِي فَلَمَّا سَأَلته عَن الْبَقَرَة وَآل عمرَان أَو عَن الْبَقَرَة فَقَالَ اعفني عَن هَذَا اعفني عَن هَذَا‘‘ [2] ’’میں جناب عطاء سے اپنی پسند کی ہر چیز کے بارے میں پوچھ لیا کرتا تھا، لیکن جب میں ان سے سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران یا سورۃ البقرۃ کے بارے میں پوچھتا تو فرماتے: اس بارے میں مجھے معاف رکھیے۔ مجھے معاف رکھیے۔‘‘ (6) اس بارے میں دیگر تابعین عظام اور ائمہ سلف سے کثرت کے ساتھ اقوال منقول ہیں۔ معروف تابعی مفسر قتادہ السدوسی [3] بھی تفسیر قرآن میں بالخصوص رائے سے اجتناب کرتے تھے، معمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے قتادہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: [4] ’’ما في القرآن آية إلا قد سمعت فيها بشئي‘‘ [5] ’’قرآن کی ہر آیت کے بارے میں نے کچھ نہ کچھ سن رکھا ہے۔‘‘ ایک موقع پر انہوں نے فرمایا:
[1] تذكرة الحفاظ، ذهبي، 1/98، تهذيب الكمال، مزي، 22/77، سير أعلام النبلاء، ذهبي، 5/81 [2] العلل، احمد، 2/131 [3] قتادہ: قتادہ بن دعامہ السدوسی، صغار تابعین میں سے ہیں۔ حضرت انس کے شاگرد رشید (تہذیب التہذیب، ابن حجر: 8/355) انہوں نے کبار تابعین سعید بن المسیب، حسن بصری، عکرمہ، شعبی سے استفادہ کیا (تہذیب الکمال: 23/499) 117ھ میں وفات پائی (تہذیب الکمال، 23/517) [4] ملاحظہ ہو: مقدمة في أصول التفسير، ابن تيميه، 5/55 [5] جامع ترمذي، كتاب تفسير القرآن، باب ما جآء في الذي يفسر القرآن برأيه