کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 21
4۔ تفسیر بالرأی المذموم پہلا مدرسہ فکر اس بات کا حامی تھا کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں ماثور و منقول مواد ہی پر اکتفا کیا جائے اور فکر و نظر کی ان بدعات کو اس کے دائرے میں نہ لایا جائے جن سے اسلام کی بنیادی روح متاثر ہوتی ہے۔ دوسرا مکتبہ فکر چند شروط و قیود کے ساتھ تفسیر قرآن میں عقل و رائے کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ تیسرا مدرسہ فکر قرآن مجید کے اندرونی نظام کو ایک فیصلہ کن عامل کی حیثیت دیتا ہے۔ یہ مکتب فکر اس بات کا پرزور قائل ہے کہ قرآن مجید کی ہر سورت کا ایک عمود (مرکزی مضمون) ہوتا ہے اور سورت کی تمام آیتیں اس سے مربوط ہوتی ہیں۔ اسے نظم القرآن یا نظام القرآن کہا جاتا ہے۔ جب تک یہ نظم سمجھ میں نہ آئے اس وقت تک نہ تو اس سورت کی قدروقیمت اور حکمت واضح ہوتی ہے اور نہ ہی اس سورت کی متفرق آیات کی صحیح تفسیر متعین ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ بھی رائے ہی کی ایک قسم ہے، لیکن نظم قرآنی پر خاص جدوجہد کی وجہ سے یہ ایک مستقل مدرسہ فکر ہے، برصغیر میں اس کے بانی چونکہ علامہ حمید الدین فراہی ہیں اس لیے اسے فراہی مکتب فکر کہا جاتا ہے۔ چوتھا مدرسہ فکر، نقل و نظم سے زیادہ عقل کا دلداہ ہے۔ اس دبستان فکر سے وابستہ اصحاب نے قرآن مجید کی ہر ہر آیت کو سمجھنے کے لیے لغت و عقل کو کافی وافی سمجھا، جو نئے نئے مطالب و معانی فکر کو بھائے اسے بلا تامل آیات قرآنیہ پر چسپاں کیا۔ نتیجتاً ارکان اسلام اور عقائد و ایمانیات جیسے بنیادی تصورات میں بھی جمہور امت سے منحرف ہو گئے۔ اسے مکتب تفسیر بالرأی المذموم یا انحرافی مکتب فکر کا نام دیا گیا ہے۔ چاروں شرکائے بزم نے اپنے اپنے متعین کردہ اسلوب و منہاج کے مطابق تعبیر قرآن کے دائروں میں وسعت و گہرائی پیدا کی اور تفسیر کے اصول مدون کیے۔ ان میں سے کچھ اصحاب علم و فضل نے اصول تفسیر پر مستقل تصانیف و تالیفات سے امت کو مستفید کیا، پھر اس کے مطابق تفاسیر بھی قلمبند کیں اور بعد میں آنے والوں پر دُوررس اثرات مرتب کیے۔ کچھ دیگر صاحبان علم و تحقیق نے اصول تفسیر کے اس سلسلے کو آگے بڑھایا ان کی