کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 209
’’زمین کا کون سا قطعہ مجھے پناہ دے گا اور آسمان کا کون سا گوشہ مجھے سایہ فراہم کرے گا، اگر میں کتاب اللہ میں اپنی رائے سے یا بے علمی سے کچھ کہوں۔‘‘
(2) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مہم من اللہ ہونے کے باوجود اپنی رائے کے بارے میں یہ تبصرہ فرماتے:
’’يا أيها الناس، إن الرأْيَ إنما كان من رسول اللّٰه - صلى اللّٰه عليه وسلم- مُصِيباً، لأنَّ اللّٰه كان يُريه، وإنما هُو منا الظَّنُ والتَّكَلُّفُ‘‘ [1]
’’اے لوگو! بےشک رائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی صائب ہوتی تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی راہ نمائی فرماتے تھے جبکہ ہماری رائے تو محض ظن اور تکلف پر مبنی ہوتی ہے۔‘‘
تابعین عظام اور رائے کی مذمت
(1) امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: [2]
’’ ما جاءکم بہ ھؤلاء عن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فخذوہ وما کان رأیھم فاطرحوہ فی الحش‘‘ [3]
’’یہ لوگ جو کچھ اصحابِ رسول کے حوالے سے پیش کریں اسے حاصل کر لو اور جو ان کی اپنی آراء ہوں انہیں بیت الخلا میں پھینک دو۔‘‘
(2) ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ان سے مروی ہیں کہ انہوں نے اپنے شاگرد سے کہا:
’’ما حدثوک عن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فخذ بہ، وما قالوا برأیھم فبل علیہ‘‘ [4]
[1] جامع بيان العلم، ابن عبدالبر: 2000
[2] امام شعبی: کبار تابعین میں سے ہیں، اپنی زندگی میں پانچ صد صحابہ کا عہد مبارک پایا۔ مکمل نام عامر بن شراحیل الشعبی ہے۔ 103ھ میں فوت ہوئے۔ (دیکھیے تهذيب الكمال، مزي، 14/28-40)
[3] الاحكام في أصول الأحكام، ابن حزم، 6/54، سنن دارمي: 1/6
[4] مصنف عبدالرزاق، 1، 1/265، (20476)، جامع بيان العلم، ابن عبدالبر، 1438، صحيح اسناده الشيخ مشهور، (إعلام الموقعين، 2/138)