کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 208
’’جس نے قرآن مجید میں رائے سے کام لیتے ہوئے کچھ کہا، اگرچہ درست بھی کہا تو بھی اس نے غلطی کی۔‘‘
(3) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
((إِنَّ اللّٰه لَا يَنْزِعُ الْعِلْمَ مِنَ النَّاسِ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْهُمْ بَعْدَ إِذْ أَعْطَاهُمُوهُ وَلَكِنْ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، فَإِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤَسَاءَ جُهَّالًا، يَسْتَفْتُونَهُمْ فَيُفْتُونَ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَيُضِلُّونَ وَيَضِلُّونَ))
’’اللہ تعالیٰ علم کو انسانوں سے اچانک نہیں اٹھائیں گے، بلکہ علماء فوت ہو جائیں گے، ان کے جانے سے علم بھی رخصت ہو جائے گا اور لوگوں میں جاہل پیشوا باقی رہ جائیں گے، وہ علم کے بغیر فتویٰ صادر کریں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
((فيفتون برأيهم فيضلون و يضلون)) [1]
’’وہ اپنی رائے سے فتویٰ جاری کریں گے، خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
صحابہ کرام اور رائے کی مذمت
(1) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ أي أرض تقلني، وأي سماء تظلني، اذا قلت في كتاب اللّٰه برأي أو بما لا أعلم‘‘ [2]
[1] صحيح بخاري، كتاب العلم، باب كيف يقبض العلم، حديث 100، كتاب الاعتصام، باب ما يذكر في ذم الرأي، حديث 7307، صحيح مسلم، كتاب العلم، باب رفع العلم و قبضه، حديث 6273
[2] تفسير طبري: 1/78 جامع بيان العلم وفضله، ابن عبدالبر، 2/833، حديث (1561)، فتح الباري، ابن حجر، 13/271، سنن سعيد بن منصور، حديث 39، مصنف ابن ابي شيبه، حديث (10152) حسن اسناده الشيخ ابو عبيده مشهور بن حسن آل سلمان، إعلام الموقعين، 2/100، حاشيه نمبر 2