کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 206
(1) اس بارے میں امام مجاہد سب سے آگے بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں، بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ امام مجاہد نے تفسیر بالمأثور میں عقل و اجتہاد کا دروازہ کھولا۔ [1]
نہ صرف وہ خود رائے اور اجتہاد سے کام لیتے بلکہ اس کی ترغیب بھی دیتے۔ ان کا معروف قول ہے: ’’إِنَّ أَفْضَلَ الْعِبَادَةِ الرَّأْيُ الْحَسَنُ‘‘ [2]
’’اچھے طریقے سے غوروفکر بہترین عبادت ہے۔‘‘
اس اجتہادی توسع کی بناء پر ان سے بعض عجیب و غریب اقوال منقول ہیں جن پر ائمہ نے مؤاخذہ بھی کیا ہے۔ امام ذہبی لکھتے ہیں:
’’ لمجاهد أقوال وغرائب في العلم والتفسير تستنكر‘‘ [3]
’’علم و تفسیر میں مجاہد کے بعض اقوال و تفردات منکر سمجھے جاتے ہیں۔‘‘
بلکہ امام مجاہد کے ان تفردات سے بعض گمراہ فرقے دلائل پکڑتے ہیں۔
(2) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے دوسرے شاگرد رشید جناب عکرمہ بھی تفسیر بالرائے سے کام لیتے تھے، بلکہ اس قدر غوروفکر سے کام لیتے تھے کہ فرمایا کرتے: [4]
’’ إِنِّي لِأَخْرُجُ إِلَى السُّوقِ فَأَسْمَعُ الرَّجُلَ يَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ فَيَنْفَتِحُ لِي خَمْسُونَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ‘‘ [5]
’’میں بازار جا رہا ہوتا ہوں، کسی شخص سے ایک بات سنتا ہوں اور میرے لیے علم کی پچاس راہیں کشادہ ہو جاتی ہیں۔‘‘
البتہ ان کی بھی بعض آرائ اور تفردات ائمہ کے نزدیک قابلِ موأخذہ ہیں۔ [6]
(3) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تابعین کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ والمقصود أن التابعين تلقوا التفسير عن الصحابة كما تلقوا
[1] تفسير التابعين، الخضيري: 1/133
[2] تأويل مختلف الحديث، ابن قتيبه، ص 69، البداية والنهاية، ابن كثير: 9/259
[3] سير أعلام النبلاء: 4/155
[4] تفسير التابعين، الخضيري: 1/134
[5] الطبقات الكبريٰ، ابن سعد، 5/288، تهذيب الكمال، مزي، 20/274 تذكره الحفاظ، ذهبي، 1/96
[6] الجرح والتعديل، رازي، 7/9، هدي الساري، ابن حجر، ص 427