کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 20
اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ بارہویں صدی ہجری تک اس موضوع پر کوئی مستقل کتاب نہیں ملتی۔ اس خطہ ارضی میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوفی 1176ھ) کی ”الفوز الكبير في أصول التفسير“ کو اس موضوع پر پہلی باقاعدہ کتاب کا مقام حاصل ہوا۔
(مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور سید سلیمان ندوی نے اسے اس موضوع پر پہلی کتاب کہا ہے۔ معارف سید سلیمان ندوی نمبر، ص 249، تاریخ دعوت و عزیمت، ابو الحسن علی ندوی، 150/5۔154) نیز دیکھیے: ’’فن اصول تفسير‘‘ مبادئ تدبر قرآن کے حوالے سے ’’اشهد رفيق ندوي، ششماهي علوم القرآن‘‘ علی گڑھ، جلد 17، شمارہ 1 جنوری، جون 2002، ص 35۔78)
اس طرح یہ عظیم المرتبت شعبہ علم صدیوں تک ایک منظم، مدون اور باقاعدہ علم کے طور پر سامنے نہ آ سکا اور مفسرین اپنے اپنے انداز میں تفسیریں رقم فرماتے رہے۔ یہاں مخصوص تہذیبی پس منظر اور ماحول میں بالعموم تفسیر قرآن کے نام پر فلسفہ و معقولات کی خالص فنی مباحث یا پھر اذواق اور کشوفات کا غلبہ اس قدر رہا ہے کہ خود قرآن اور اس کا پیغام پردہ خفا میں چلا گیا۔ اگر تفسیر قرآن کے اصول و قواعد منضبط شکل میں موجود ہوتے تو شاید صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔
نابغہ روزگار شاہ ولی اللہ کے بعد صورت احوال میں بہت مثبت تبدیلی آئی۔ قرآن مجید ایک نئے انداز اور جدید اسلوب و منہاج میں افکار و تحقیقات کا مرکز بنا۔ تطور و ارتقاء کے اس موڑ پر اصول تفسیر پر مواد کی کمی کا احساس بہت سے لوگوں نے کیا اور اپنی اپنی علمی استطاعت و نظریاتی میلان کے مطابق اس خلا کو پر کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس موضوع پر نہایت قابل قدر کاوشیں منظر عام پر آئیں۔ ارتقاء و تغیر کے اس موڑ پر چار واضح اور متعین مدارس فکر وجود میں آئے جنہیں ہم برصغیر کے اساسی و بنیادی نوعیت کے ’’مدارس تفسیر‘‘ یا تفسیری مکاتب فکر قرار دے سکتے ہیں۔
1۔ تفسیر بالمأثور
2۔ تفسیر بالرأی المحمود
3۔ فراہی مکتب فکر