کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 152
﴿ وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَـٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ ﴿٥٨﴾ فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴿٥٩﴾﴾ (البقرۃ:58-59) ’’اور جب ہم نے کہا: اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور جو کچھ یہاں سے چاہو بافراغت کھاؤ پیو اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے گزرو اور زبان سے ’’حِطَّةٌ‘‘ کہو، ہم تمہاری خطائیں معاف فرما دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔ پھر ان ظالموں نے اس بات کو بدل کر کوئی اور ہی قول کہہ دیا جو اس کے خلاف تھا، جس کی ان سے فرمائش کی گئی تھی۔ ہم نے بھی ان ظالموں پر فسق و نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا۔‘‘ وہ بات کیا تھی جو بنی اسرائیل نے کہی؟ اس میں ابہام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس ابہام کا ازالہ فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل نے کہا: ((حَبَّة في شَعرة)) ’’گندم بالی سمیت۔‘‘ [1] (5) قرآن مجید کے علوم خمسہ کی تفصیلات شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تقسیم کے مطابق قرآن مجید پانچ علوم پر منقسم ہے۔ قرآنی آیات میں غور کیا جائے تو واضح دکھائی دیتا ہے کہ ان پانچوں علوم میں بہت سارے مقامات پر قرآن مجید نے اپنی جامعیت و اختصار کے پیش نظر اجمال سے کام لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ قرآن مجید کے مقاماتِ اجمال کو بسط و تشریح اور تفصیل کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ (2)
[1] جامع ترمذي، كتاب التفسير، باب: ومن سورة البقره، حديث (2956) قال الترمذي: حديث حسن صحيح، صحيح الترمذي، الباني، حديث (2356) اگر ان میں سے ہر علم پر الگ الگ مثالیں پیش کی جائیں تو موضوع انتہائی طوالت اختیار کر جائے گا۔ علوم خمسہ کے اجمالات کی جس طرز پر تفصیلات و تشریحات احادیث میں وارد ہوئی ان کی طرف انتہائی اختصار کے ساتھ اشارات پر اکتفاء کیا گیا ہے۔ ان اشارات سے محض سرسری اندازہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ حدیث کس طرح تفسیر قرآن ہے۔