کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 151
مثال نمبر 1 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ﴾ (الرعد:13) ’’گرجنے والا اس کی تحمید کرتا ہے اور سب فرشتے بھی، اس کے خوف سے۔‘‘ [1] ’’ الرَّعْدُ‘‘ بادل کی گرج کو بھی کہتے ہیں، مخصوص فرشتے کا بھی نام ہے۔ [2] بعض مفسرین نے درج ذیل حدیث سے اس ابہام کی توضیح کی ہے۔ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا: ’’ أَخبِرنا عن الرَّعد ما هو؟‘‘ ہمیں بتائیں ’’ رعد‘‘ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَلَكٌ من الملائكة مُوكَّلٌ بالسَّحاب، معه مَخاريقُ مِن نار يَسوق بها السَّحابَ حيث شاء اللّٰه)) ’’بادلوں پر مقرر ایک فرشتہ ہے جس کے ہاتھ میں آگ کے کوڑے ہیں، جن کے ذریعے سے وہ بادلوں کو جہاں اللہ تعالیٰ چاہے ہانک کر لے جاتا ہے۔‘‘ یہودیوں نے مزید پوچھا: یہ آواز جو ہمیں سنائی دیتی ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ بادل کو چلانے کی آواز ہے، جب فرشتہ اسے چلاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مأمور بہ جگہ تک پہنچ جائے ۔۔۔ الخ۔‘‘ [3] مثال نمبر 2 بنی اسرائیل کے منفی رویے اور احکام الٰہی سے استہزاء کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[1] اس آیت پر مولانا شبیر احمد عثمانی کی تقریر و تفسیر بہت عمدہ، جامع و مانع نیز ضعیف العقیدہ، جدید سائنس سے مرعوب ذہن کے لیے لائق مطالعہ ہے۔ ملاحظہ ہو: تفسير عثماني، ص 332۔ فائدہ نمبر 1۔ [2] مفردات القرآن راغب اصفهاني (ترجمه مولانا عبده الفلاح) 1/358۔ [3] جامع الترمذي، كتاب التفسير، باب: ومن سورة الرعد، حديث: (3117)، ص 704، قال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح غريب، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة صحيحه، الباني، حديث (1872)