کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 149
﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾ [1]
’’اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ان دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔‘‘
اگر حدیثِ رسول سے اس آیت کی تقیید نہ کی جائے تو ہر قسم کی چھوٹی، بڑی چوری پر ہاتھ کاٹنا واجب ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً ﴿ السَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ﴾ کی یہ حد بیان کی ہے۔ لیکن جمہور امت کے نزدیک بخلاف اہل ظاہر قطع ید کی سزا مخصوص نصابِ سرقہ و نوعیتِ سرقہ کی صورت میں عائد ہو گی۔ اگرچہ نصابِ سرقہ کی تعیین میں فقہی اختلافات موجود ہیں۔ [2]
مثال نمبر 2
اللہ تعالیٰ نے تجارت کے بارے عمومی اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ﴾
’’آپس کے اموال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ، مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے خریدوفروخت ہو۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿ وَأَحَلَّ اللّٰه الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ﴾
’’اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام۔‘‘ (البقرۃ:275)
مذکورہ دونوں آیاتِ مبارکہ میں تجارت کو مطلقاً حلال کہا گیا ہے، اس آیت کے اطلاق کی رُو سے ہر قسم کی تجارت جس میں باہمی رضامندی ہو، جائز ہے۔
[1] المائدة، ملاحظہ ہو:فتح الباري لابن حجر 9/658
[2] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباري، ابن حجر، 12/96، عون المعبود شرح سنن ابي داؤد، عظيم آبادي، 3/841، تحفة الأحوذي، شرح جامع ترمذي، مباركپوري، 2/330، مصنف عبدالرزاق 1/223-235، المغني لابن قدامه 8/242۔ تفسير ابن كثير 2/79-81