کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 147
قاتل کے بارے میں آپ نے فرمایا: ((ليسَ للقاتلِ منَ الميراثِ شيءٌ)) [1]’’قاتل کے لیے وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ کافر کے بارے آپ نے فرمایا: ((لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ)) [2]’’مسلم کافر کا اور کافر شخص کسی مسلم کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘ غلام کے بارے اجماع ہے کہ چونکہ اس کی اپنی ملکیت ہی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ﴾ (النحل:75) کہ ’’ایک غلام ہے جو (بالکل) دوسرے کے اختیار میں ہے اور کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔‘‘ لہٰذا اس کا وراثت میں حصہ نہیں ہے۔ [3] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان نے انبیاء علیہم السلام کی وراثت کو بھی اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ [4] جیسا کہ حدیث میں ہے: ((لا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ)) ’’ہماری کوئی وراثت نہیں ہوتی جو کچھ ہم ترکہ میں چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ [5] مثال نمبر 3 اللہ تعالیٰ نے محرماتِ نکاح (یعنی جن خواتین سے نکاح کرنا حرام ہے) کا تذکرہ کرنے کے بعد ایک عمومی حلت بیان کرتے ہوئے کہا:
[1] سنن ابي داؤد، كتاب الديات، باب ديات الأعضاء، حديث (4564)، سنن نسائي الكبريٰ، كتاب باب حديث (6367) تفصیلی تخریج کے لیے ملاحظہ ہو: ارواء الغليل، ألباني 6/118۔ امام ابن قدامہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (المغني: 7/161) [2] صحيح البخاري: 6764، مع الفتح، 12/50، صحيح مسلم، كتاب الفرائض، باب ((لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ)) حديث (1614) [3] المغني، ابن قدامه، 7/130، 131۔ حاشيه ردالمختار، ابن عابدين، 6/766 [4] ملاحظہ ہو: الرسالة، شافعي، ص 98، اعلام الموقعين، ابن القيم، 2/315، قواعد التفسير، 1/143 [5] صحيح البخاري: 3092، مع فتح الباري، 12/16، صحيح مسلم، كتاب الجهاد، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: ((لا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ)) حديث (1759، 1760، 1761) ص 779، 781۔