کتاب: تفسیر قرآن کے اصول و قواعد - صفحہ 108
مثلاً: ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: ﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴿٦٠﴾﴾ (المؤمن:60) ’’اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں۔ عنقریب وہ جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘ پڑھ کر ارشاد فرمایا: ((الدعاء هو العبادة)) [1]’’دعا ہی عبادت ہے۔‘‘ گویا آپ کا طرز استدلال یہ تھا کہ آیت مبارکہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے ’’ ادْعُونِي‘‘ کہہ کر دعا کا حکم فرمایا اور آیت کے دوسرے حصہ میں اس حکم سے استکبار و انحراف کرنے والوں کو: ﴿ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي﴾ فرما کر جہنم کی وعید سنائی، جس سے یہ معلوم ہوا کہ اس مقام پر عبادت سے مراد دعا ہے۔ (2) قراءات کے ذریعے سے تفسیر تفسیر القرآن بالقرآن کی ایک اہم صورت یہ بھی ہے کہ قراءت کی روشنی میں مفردات کی تشریح کی جائے اور بعض مفاہیم کی تعیین کی جائے۔ اس بارے میں منہج تفسیر بالمأثور کا ایک اہم قاعدہ یہ ہے: ’’ القراءت يبين بعضها بعضا‘‘ ایک قراءت دوسری قراءت کی تفسیر کرتی ہیں۔ [2] مثال نمبر 1 قرآن مجید میں حائضہ خواتین کے بارے میں ارشاد ہے:
[1] سنن ابوداؤد، كتاب الوتر، باب الدعاء، حديث (1479)، سنن ابن ماجه، كتاب الدعاء، باب فضل الدعاء، حديث (3828)، جامع ترمذي، ابواب تفسير القرآن، باب تفسير سورة البقرة، حديث (2969) [2] أضواء البيان، شنقيطي 2/120، فصول في أصول التفسير، مساعد بن سليمان الطيار، ص: 129، قواعد التفسير، خالد بن عثمان، السبت، 1/90