کتاب: تفہیم دین - صفحہ 99
داڑھی کے متعلق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سوال:داڑھی کے متعلق مختلف لوگوں کا نظریہ مختلف ہے کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ،پچھلے دنوں بخاری شریف کا مطالعہ کر رہا تھا(ترجمہ و تفسیر علامہ وحید الزماں)ایک حدیث نظر سے گزری جس کا ترجمہ کچھ یوں تھا: ہم سے محمد بن منہال نے بیان کیا،کہا ہم سے یزید بن زریع نے،کہا ہم سے عمر بن زید نے،انہوں نے نافع سے،انہوں نے ابن عمر سے،انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے،آپ نے فرمایا:مشرکین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے داڑھیاں چھوڑ دو اور مونچھوں کو خوب کتر ڈالو اور عبداللہ بن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے تھامتے جتنی زیادہ ہوتی اس کو کتروا دیتے تھے۔ (حدیث نمبر 368،باب ناخنوں کے کترنے کا بیان) اس حدیث مبارکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کی خلاف ورزی کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ داڑھیاں بڑھاؤ لیکن یہ نہیں بتایا کہ کتنی بڑھاؤ،آیا شروع سے ہی رکھنی چاہیے یا کاٹی جا سکتی ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل کا ذکر ہے کہ وہ جب حج یا عمرہ کرتے تو مٹھی بھر سے زائد داڑھی کٹوا دیتے تھے۔کیا ان کا یہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے خلاف تھا یا کوئی اور بات تھی اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ عمل ایک سے زائد مرتبہ کیا ہے۔بعض لوگ داڑھی کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر رکھ لی جائے تو ثواب ہے اور اگر نہ رکھی جائے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔کیا مشرک بھی داڑھی رکھتے تھے آج کل جو کافر ہیں وہ تو داڑھی نہیں رکھتے۔تو اگر تراشیدہ داڑھی رکھ لی جائے تو کس قدر گناہ ہوتا ہے۔اسلام میں"خط"کا کوئی تصور موجود ہے یا نہیں اور داڑھی فرض ہے یا سنت اور اگر سنت ہے تو کیسی سنت اور جو لوگ داڑھیاں نہیں رکھتے اسلام نے ان کے متعلق کیا وعید سنائی ہے۔اہل سنت داڑھی کو مٹھی سے بڑھانا مکروہ اور اہل شیعہ حرام قرار دیتے ہیں آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔(محمد اظہر منظور،ہاؤسنگ کالونی،گوجرہ)