کتاب: تفہیم دین - صفحہ 95
والا)انکار کرے تو اس سے لڑائی کرو،یقینا اس کے ساتھ شیطان ہے۔" یہ حدیث صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَليُصَلِ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا،لَا يَقْطَعُ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ)(صحیح ابن خزیمہ 2/10 مسند احمد 4/2) "جب بھی تم میں سے کوئی نماز ادا کرے تو وہ سترہ کی طرف نماز ادا کرے اور اس کے قریب ہو کر کھڑا ہو۔اس پر شیطان اس کی نماز کو نہیں توڑے گا۔" ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (اذا صلى احدكم فليستره)(شرح السنہ 2/447) "جب بھی تم میں سے کوئی نماز ادا کرے تو سترہ رکھے۔" ان احادیث صحیحہ مرفوعہ سے معلوم ہوا کہ ہمیں نماز ادا کرتے وقت یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے آگے سترہ رکھیں اور حکم وجوب کے لئے ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ صارفہ عن الوجوب ہو،یعنی کوئی اور ایسی صحیح دلیل مل جائے جو اس حکم کو وجوب سے نکال دے۔صحیح البخاری کتاب العلم 76 وغیرہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں جو آیا ہے کہ (وَرَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم يُصَلِّى بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں دیوار کے بغیر نماز پڑھ رہے تھے۔اس کے مفہوم میں اہل علم کے ہاں اختلاف ہے،حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:غیر جدار سے مراد غیر سترہ ہے۔یہ بات امام شافعی نے کہی ہے اور سیاق کلام اس پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے معرض الاستدلال میں وارد کیا ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا اس کی نماز کو نہیں توڑتا،اور مسند بزار کی روایت اس کی تائید کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: (والنبي صلى اللّٰه عليه وسلم يصلي المكتوبة ليس لشئ