کتاب: تفہیم دین - صفحہ 82
طلوع ہوتا تھا جس کو میں نے ستر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:مجھے میرے رب کی عزت و عظمت کی قسم اے جبرائیل علیہ السلام وہ نوری تارہ میں تھا۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس کے متعلق تاریخ بخاری کا حوالہ مذکورہ کتاب میں دیا گیا ہے کیا یہ درست ہے؟(محمد الیاس،لاہور) جواب:رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (من قال علي ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار) "جس نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لے۔"(مسند احمد 1/20 حاکم 1/102 صحیح ابن حبان 2214 وغیرہا) اس لئے ایسے الفاظ جو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کہے ہوں ان کی نسبت آپ کی طرف کرتے ہوئے ڈرنا چاہیے اور حدیث رسول بیان کرتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے،ہمیں امام بخاری کی تاریخ کبیر اور صغیر سے یہ روایت نہیں ملی بلکہ آج تلک اس کی کوئی صحیح سند کسی حدیث کی کتاب سے نہیں ملی جو لوگ اس کے مدعی ہیں انہیں چاہیے کہ اس روایت کی کوئی پختہ سند اگر ان کے پاس ہے تو اس پر مطلع کریں،کیونکہ روایات کی جانچ پڑتال کے لئے سند کا ہونا ضروری ہے۔امام عبداللہ بن مبارک نے فرمایا: (الإسناد عندي من الدين ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء)(مقدمہ صحیح مسلم) سند دین میں سے ہے اور اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ منہاج السنۃ4/11 میں فرماتے ہیں:"سند اس امت کی خصوصیت میں سے ہے اور وہ اسلام کی خصوصیات میں سے ہے۔۔۔لہذا کسی روایت کے صحیح ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی صحیح سند ہو جب کسی روایت کی کوئی سند ہی نہ ہو تو وہ کسی طرح بھی حجت نہیں ہو سکتی۔