کتاب: تفہیم دین - صفحہ 78
اور ایک روایت میں ہے: (من قال علي ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار) "جس نے مجھ پر وہ بات کہی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔" اس لئے جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بات منسوب کر کے بیان کرتا ہے اس کے لئے سند کی شرط لگائی گئی پھر سند کی صحت کے لئے بھی کڑی شرائط کو مدنظر رکھا گیا اور جس روایت کی کوئی سند نہ ہوتی اسے کسی صورت بھی قبول نہ کیا جاتا۔امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: (الإسناد عندي من الدين ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء،فإذا قيل له من حدثك ؟ بقي)(تاریخ بغداد 6/166۔مقدمہ صحیح مسلم،معرفہ علوم الحدیث للحاکم ص 6) "اسناد میرے نزدیک دین میں سے ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو ہر کوئی جو چاہتا کہہ دیتا لیکن جب اسے کہا جائے تجھے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے تو وہ ساکت ہو جاتا۔" عبداللہ شاگرد ابن مبارک رحمہما اللہ فرماتے ہیں،عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات زنادقہ اور روایات گھڑنے والوں کے ذکر کے وقت کہی۔امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ ضعیف و متروک راوی سے کہا: (قاتلك اللّٰه،يا ابن أبي فروة،ما أجرأك على اللّٰه،ما تسند حديثك . تحدثنا بأحاديث،ليس لها خطم ولا أزمة)(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص 6،ط جدید ص 42) ’’اے ابن ابی فروہ! اللہ تجھے ہلاک کرے تو اللہ تعالیٰ پر کس قدر جرأت کرنے والا ہے۔تو اپنی روایت کی سند بیان نہیں کرتا۔تو ہمیں ایسی روایتیں بیان کرتا ہے جن کی نکیلیں اور مہاریں نہیں ہیں۔‘‘ یعنی جس طرح جانور کو باندھنے اور چلانے کے لئے نکیل اور مہار کی ضرورت