کتاب: تفہیم دین - صفحہ 76
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ: "اللّٰهُم صلِّ على محمد وأزواجه وذريته"(صحیح البخاری،ابوداؤد) "اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج اور اولاد پر رحمت نازل کر۔" امام ابن عبدالبر نے موطا کی شرح تمہید میں ذکر کیا ہے کہ اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ آل محمد سے مراد آپ کی بیویاں اور اولاد ہے اور اللّٰهُم صلِّ على محمد وأزواجه وذريته آل محمد کی تفسیر ہے۔ اسی طرح صحیحین کی حدیث"اللّٰهُم اجعل رزق آل محمد قوتا"اے اللہ! آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رزق بقدر خوراک بنا دے۔ظاہر ہے کہ آپ کی ہر دعائے مستجاب تمام بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب پر صادق نہیں آتی کیونکہ ان میں اس وقت بھی دولت مند اور صاحب وسعت تھے اور اب بھی ہیں مگر ازواج و ذریت پر یہ دعا بالکل صادق آتی ہے کیونکہ آپ کی زندگی میں ان کا رزق بقدر خوراک تھا اور آپ کے بعد بھی یہی حال تھا اگر کہیں سے مال آ جاتا ازواج مطہرات بقدر خوراک رکھ کر باقی صدقہ کر دیتی تھیں۔ تیسرے قول کی دلیل یہ ہے کہ معظم اور متبوع شخص کی آل وہ ہوتی ہے جو اس کے طریقہ اور دین پر ہو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِلَّا آلَ لُوطٍۖ نَّجَّيْنَاهُم بِسَحَرٍ ﴾(القمر:34) "ہم نے آل لوط علیہ السلام کو سحری کے وقت نجات دی۔" یہاں آل لوط سے مراد ان کے پیروکار ہیں اسی طرح ارشاد باری ہے: ﴿أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾(غافر:46)) "آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو۔" یہاں آل فرعون سے مراد اس کے پیروکار ہی ہیں اسی طرح واثلہ بن اسقع کے بارے میں بیہقی میں حدیث ہے کہ آپ نے انہیں اپنے اہل میں شمار کیا حالانکہ واثلہ رضی اللہ عنہ نسب میں تو بنو لیث بن بکر میں سے تھے لیکن وہ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تھے۔ چوتھے قول کی دلیل یہ ہے کہ نوح علیہ السلام کے بیٹے کے بارے میں ارشاد