کتاب: تفہیم دین - صفحہ 74
ساتھ سیدنا لکھا جاتا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔(ابو علی عسکری) جواب:موجودہ دور میں لفظ سید ایک مخصوص ذات کے لئے لوگ استعمال کرتے ہیں حالانکہ سید کوئی ذات نہیں ہے بلکہ کتاب و سنت کی رو سے شرافت و بزرگی اور سرداری کے لئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کلمات استغفار پر"اللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي"(الحدیث)کو فضیلت دیتے ہوئے اسے سید الاستغفار قرار دیا ہے۔(صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب افضل الاستغفار 6302) جمعۃ المبارک کے بارے میں آپ نے فرمایا: (سَيِّدُ الأَيَّامِ يَوْمُ الْجُمُعَةِ،فِيهِ خُلِقَ آدَمُ،وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ،وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا،وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ إِلاَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ) (المستدرک 1/277،صحیح ابن خزیمہ 3/115) تمام دنوں کا سردار جمعہ والا دن ہے،اسی میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن جنت میں داخل کئے گئے اور اس دن ہی جنت سے نکالے گئے اور قیامت بھی اسی دن قائم ہو گی۔ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آپ نے"سید الشہداء"فرمایا۔ (المستدرک 2/120،3/195۔فتح الباری 7/368۔سلسلہ احادیث صحیحہ 374) ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سید کا لفظ سرداری،شرافت و بزرگی ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔صحیح البخاری وغیرہ میں ہے حسن رضی اللہ عنہ کے لئے آپ نے فرمایا:"إن ابني هذا سيد"میرا یہ بیٹا سردار ہے اور صحیح البخاری،کتاب الانبیاء(3340)میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"قیامت والے دن میں سب انسانوں کا سردار ہوں گا۔ الغرض بے شمار احادیث صحیحہ میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی یہ کسی مخصوص ذات پر نہیں بولا گیا ہر مومن موحد اپنے اپنے مقام پر بزرگ و سید ہے۔