کتاب: تفہیم دین - صفحہ 70
تقریر کرتے ہیں یہ کوئی معجزہ یا کرامت نہیں ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ تاریخ اسلام میں چار پانچ سال کی عمر کے کئی ایک ایسے بچوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے قرآن حکیم حفظ کیا ہوا تھا۔اصول حدیث کی اہم ترین درسی کتاب مقدمہ ابن الصلاح کی چوبیسویں نوع میں موجود ہے کہ ابراہیم بن سعید الجوہری فرماتے ہیں:میں نے چار سال کا ایک بچہ دیکھا جسے مامون کی طرف لایا گیا تھا وہ قرآن بھی پڑھتا تھا اور رائے اور نظر بھی رکھتا تھا مگر جب اسے بھوک لگتی تو رو پڑتا تھا۔ اسی طرح قاضی ابو محمد عبداللہ بن محمد الاصبہانی کہتے ہیں میں نے پانچ برس کی عمر میں قرآن یاد کیا ہوا تھا مجھے ابوبکر بن المقری کی طرف جب سماع کے لئے لایا گیا تھا تو اس وقت میں چار سال کا تھا بعض حاضرین مجلس نے کہا اس کی قراءت نہ سنو اس لئے کہ چھوٹا بچہ ہے مجھے ابن المقری نے کہا سورۃ کافرون پڑھو میں نے اسے پڑھا پھر انہوں نے کہا سورۃ تکویر پڑھو میں نے اسے بھی پڑھا۔ابن المقری کے علاوہ کسی دوسرے نے کہا سورۃ المرسلات پڑھو میں نے وہ بھی پڑھی اور اس میں غلطی نہیں کی۔اس پر ابن المقری نے کہا اس کی قراۃ کا سماع کرو ذمہ داری مجھ پر ہے۔ (مقدمہ ابن الصلاح معه الشذا الفیاح ص 182) اس سے معلوم ہوا کہ چار پانچ برس کی عمر کا حافظ قرآن ہونا کوئی انوکھی بات نہیں البتہ جو لوگ پیدائشی طور پر حفظ کی بات کرتے ہیں اس کی کوئی مثال صحیح طور پر ثابت نہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں سورۃ النحل پارہ نمبر 14 آیت نمبر 78 میں ارشاد فرمایا ہے: "اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے اس نے تمہارے کان،آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" لہذا کسی کا پیدائشی حافظ ہونا آج تک معلوم نہیں ہوا بعض لوگ شیخ عبدالقادر جیلانی کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں لیکن ان کا کوئی صحیح ثبوت موجود نہیں۔