کتاب: تفہیم دین - صفحہ 63
یہ روایت تاریخ بغداد 5/166،262،6/50،51،11/298،13/184 تاریخ دمشق،العلل المتناہیہ وغیرھا کتب میں وارد ہوئی ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ میں اسے موضوع(من گھڑت)قرار دیا ہے۔(رقم 309)معلوم ہوتا ہے کہ جہاد سے باغی اور کسی عشق کے مریض نے یہ روایت بنائی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان کارزار میں قتل ہونے والوں کے علاوہ،جل کر،غرق ہو کر،پیٹ کے مرض سے،ذات الجنب والے اور ایسی عورت کو شہید قرار دیا ہے جو نفاس میں بچے کی ولادت پر فوت ہو جائے۔ قتیل عشق کو کہیں بھی شہید قرار نہیں دیا۔کسی قتیل لیلیٰ کی یہ کاروائی معلوم ہوتی ہے۔امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد 3/306،307 میں اس پر بڑی نفیس بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس موضوع روایت سے دھوکا مت کھائیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت نہیں ہے اور اس کا آپ کے کلام میں سے ہونا جائز نہیں،اس لئے کہ اللہ کے ہاں شہادت ایک بلند درجہ ہے جو صدیقیت کے رتبہ کے ساتھ ملایا گیا ہے اس کے لئے اعمال اور احوال ہیں جو اس کے حصول کی شروط ہیں۔اس کی دو قسمیں ہیں ایک عام اور دوسری خاص اور خاص تو شہادت فی سبیل اللہ ہے اور عام شہادتیں پانچ ہیں جو صحیح حدیث میں بیان ہوئی ہیں اور عشق ان میں سے ایک بھی نہیں ہے اور عشق ان میں سے کیسے ہو سکتا ہے یہ تو محبت میں اللہ کے ساتھ شرک ہے یہ دل اور روح پر کنٹرول کرتا ہے اور غیر کے لئے محبت پیدا کرتا ہے اس کے ذریعے شہادت کیسے پائی جا سکتی ہے۔یہ محال ہے،عشق کا فساد ہر فساد سے بڑھ کر ہے بلکہ یہ روح کی خمر(شراب)ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے اور اللہ کے ذکر اور اس کی محبت اور اس کی مناجات سے لذت اور انس حاصل کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے اور دل کی عبودیت کو غیراللہ کے لئے واجب کر دیتی ہے۔عاشق کا دل معشوق کی عبادت کرتا ہے۔بتاؤ جو کسی دوسرے آدمی کی عورت کے ساتھ عشق کرتا ہے یا امرد لڑکوں اور زانیہ و بدکار عورت سے عشق کرتا ہے وہ اس عشق کی وجہ سے شہادت کا درجہ پا لے گا۔یہ تو صریح