کتاب: تفہیم دین - صفحہ 60
لہذا یہ روایت اس علت کی وجہ سے درست نہیں اور گھر میں داخل ہونے والی یہ روایت بھی درست نہیں اس لئے کہ اس کی سند میں شریح بن عبید حضرمی ہیں جن کی ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت مرسل ہے۔جیسا کہ امام ابو حاتم رازی نے اپنی کتاب مراسیل میں صفحہ 90 پر ذکر کیا ہے اور مرسل محدثین کے ہاں ضعیف کی اقسام میں سے ہے،لہذا یہ دونوں روایتیں ہمارے نزدیک اسنادی اعتبار سے صحیح نہیں،ڈائری مرتب کرنے والے بھائی کو ان شاءاللہ متنبہ کر دیں گے۔ مسلمانوں کی میلوں ٹھیلوں میں شرکت سوال:میلوں ٹھیلوں کی زینت بننا اسلام میں کیسا ہے؟ اور ایسے مقامات پر چلتے چلتے تقسیم ہونے والی کوئی چیز کھا لے تو کیسا ہے؟(کارکنان لشکر طیبہ،ضلع قصور) جواب:اسلام میں میلوں ٹھیلوں کا کوئی تصور نہیں ہے موجودہ دور میں جو عرس میلے قائم کئے جاتے ہیں ان کی قباحتیں کسی بھی ذی شعور پر مخفی نہیں،ڈھول،باجے،سرنگیاں،بھنگڑے،جوئے،شراب و افیون وغیرہ جیسی حرام چیزوں کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے ایسی محفلوں میں شرکت کرنا گناہ ہے،زمانہ جاہلیت میں لوگ میلوں کا بندوبست کیا کرتے تھے جسے آج کے مسلمان کہلانے والے افراد نے کثرت سے اپنا لیا ہے اور میلوں میں اللہ کے علاوہ صاحب قبر کو سجدہ کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہ صریح شرک ہے،سجدہ صرف اللہ کی ذات کے لئے ہے،ایسے مقامات پر اللہ کے نام پر بھی کوئی چیز نہیں دینی چاہیے۔ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے بوانہ جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا:کیا وہاں ان کے میلوں میں سے کوئی میلہ تو نہیں،صحابہ کرام نے کہا:نہیں،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی نذر پوری کر لے اس لئے کہ اللہ کی نافرمانی میں نذر نہیں ہے اور نہ ہی اس چیز میں نذر ہے جس کا ابن آدم مالک نہیں۔(سنن ابوداؤد،کتاب الایمان والنذور 3313،بیہقی 10/83) اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ میلوں کا اسلام میں کوئی