کتاب: تفہیم دین - صفحہ 58
سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں میں نے اس پر توکل کیا اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔" ایک مقام پر فرمایا: (وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهُ )(سورۃ الطلاق) "اور جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہو جاتا ہے۔" ایک مقام پر فرمایا: (أَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ)(سورۃ الزمر) "کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں۔" الغرض اللہ تعالیٰ پر ایمان،توکل،اسے اپنے تمام امور میں کافی سمجھنا اسلامی عقیدہ ہے،بعض لوگ اس سے منحرف ہو جاتے ہیں اور قرآن و سنت کے دلائل میں تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے۔اصل روایت یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا،اس دوران میرے پاس کچھ مال آ گیا۔میں نے سوچا کہ آج کے دن میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اگر سبقت لے لی تو سبقت لے سکتا ہوں،کہتے ہیں:میں اپنا آدھا مال لے کر آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:تو نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا؟ میں نے کہا:اسی کی مثل اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جو کچھ تھا لے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:اے ابوبکر تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا باقی رکھا ؟تو انہوں نے کہا:"أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ"میں نے ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول(کی رضا مندی)کو باقی رکھا۔میں نے سوچا میں کسی چیز میں بھی ان سے آگے کبھی نہیں نکل سکتا۔(ترمذی 3675،ابوداؤد 1678،حاکم 1/414)شارحین حدیث نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس جملے"أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ"کی شرح"رضاهما"سے کی ہے،یعنی اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی جیسا کہ ملا علی قاری حنفی نے مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ 10/379 اور علامہ عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی 10/154