کتاب: تفہیم دین - صفحہ 53
اور فضائل اعمال میں ضعیف روایات ذکر کرتے ہیں لیکن کبار محدثین و اصولین رحمۃ اللہ علیہم ضعیف حدیث پر عمل کرنے کو نہ تو احکام میں جائز سمجھتے ہیں اور نہ ہی فضائل اعمال وغیرہ میں۔ان محدثین رحمۃ اللہ علیہم کے گروہ میں امام یحییٰ بن معین،امام بخاری،امام مسلم،امام ابن حبان ابستی،امام ابن حزم،امام ابن العربی المالکی،امام ابو شامہ المقدسی،امام ابن تیمیہ،امام شاطبی،امام خطیب بغدادی اور علامہ شوکانی جیسی عظیم الشان ہستیاں شامل ہیں۔علامہ محمد جمال الدین القاسمی رقمطراز ہیں ضعیف روایت کے بارے میں تین مذاہب ہیں۔پہلا مذہب یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل مطلقا جائز نہیں نہ احکام میں اور نہ فضائل میں۔ابن سید الناس نے عیون الاثر میں امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت اور علامہ سخاوی نے فتح المغیث میں امام ابوبکر بن العربی کی طرف یہ مذہب منسوب کیا ہے،بظاہر امام بخاری اور امام مسلم کا بھی یہی مذہب ہے۔امام بخاری کا اپنی صحیح میں شرط اور امام مسلم کا ضعیف راویوں پر تشنیع کرنا اور صحیحین میں ان سے کسی روایت کی تخریج نہ کرنا بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے ہاں ضعیف روایات پر عمل مطلق طور پر جائز نہیں۔یہی مذہب امام ابن حزم کا ہے۔انہوں نے اپنی کتاب الملل والنحل میں فرمایا ہے کہ(پانچویں چیز وہ ہے کہ جس کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ)وہ روایت جس کو اہل مشرق و مغرب نے یا گروہ نے گروہ سے یا ثقہ نے ثقہ سے نقل کیا۔یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی لیکن اگر کسی طریق میں کوئی ایسا راوی ہے جو کذب یا غفلت یا مجہول الحال ہونے کے ساتھ مجروح ہے یہ بھی وہ بات ہے جس کو بعض مسلمانوں نے بیان کرنا جائز رکھا ہے لیکن ہمارے نزدیک،اس کا بیان کرنا اس کی تصدیق کرنا اور اس سے کچھ اخذ کرنا حلال نہیں ہے۔(قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث ص 113) دوسرا مذہب علامہ قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا نقل کیا ہے جن کے نزدیک ضعیف روایت پر عمل کرنا مطلقا جائز ہے تیسرا مذہب فضائل اعمال میں ضعیف روایات کو چند شرطوں کے ساتھ قبول کیا گیا ہے لیکن ہمارے نزدیک