کتاب: تفہیم دین - صفحہ 50
یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔ اس آیت میں لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے جس کی تفسیر خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کر دی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا۔" سورۃ دخان میں جس رات کو مبارک قرار دیا ہے اسے ہی سورۃ القدر میں لیلۃ القدر فرمایا ہے۔رمضان المبارک کے بارے میں ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا" قرآنی آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کا نزول رمضان کے مہینہ میں ہوا،اور اس ماہ مبارک کی بابرکت اور قدر والی رات میں جن لوگوں نے لیلۃ مبارکہ کو شعبان کی نصف رات قرار دیا ہے ان کی بات درست نہیں۔ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر 4/ 145۔رہا اس رات کی تخصیص کے بارے میں روایات تو یاد رہے کہ اس کے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔ امام عقیلی فرماتے ہیں:(الضعفاء 3/29)نصف شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ کے نزول کے بارے میں جتنی روایات مروی ہیں سب کمزور ہیں اور یہی بات حافظ ابو الخطاب ابن دحیہ نے کہی ہے ملاحظہ ہو:"الباعث علی انکار البدع والحوادث،ص 52"البتہ عمومی طور پر ہر رات آسمان دنیا پر نزول باری تعالیٰ کے متعلق صحیح احادیث موجود ہیں۔شعبان کی تخصیص کے ساتھ نہیں۔"البدع والنہی عنہا"میں لکھا ہے کہ میں نے مشائخ اور فقہاء میں سے کسی کو بھی نصف شعبان کی رات کی طرف التفات کرتے ہوئے نہیں پایا اور مکحول کی روایت ذکر کرتے ہوئے بھی کسی کو نہیں پایا اور دیگر راتوں کے علاوہ اس کی فضیلت کا بھی قائل کوئی نہیں،اسی طرح(البدع والنہی 113)میں صحیح سند کے ساتھ ابی ملیکہ النمیری سے نقل کرتے ہیں کہ انہیں کہا گیا قاضی زیاد النمیری کہتا ہے"نصف شعبان کی رات کا اجر شب قدر کے اجر کی طرح ہے تو فرمانے لگے:اگر یہ بات میں اس سے سن لیتا اور میرے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تو اس سے اس کی