کتاب: تفہیم دین - صفحہ 42
طور پر اس کی راتوں کے قیام کے بارے میں کوئی صحیح حدیث جو قابل حجت ہو مروی نہیں اور مجھ سے پہلے اس بات پر امام ابو اسماعیل المروزی الحافظ نے جزم کیا ہے۔اور حافظ ابن رجب اس ماہ میں خصوصا زکوٰۃ کے حوالے سے لکھتے ہیں: "اس شہر کے لوگوں نے رجب میں زکوٰۃ نکالنے کو عادت بنا لیا ہے اس کی سنت میں کوئی اصل نہیں اور نہ ہی سلف میں سے کسی ایک سے یہ بات معروف ہے۔"(لطائف المعارف ص 125 بحوالہ السنن والمبتدعات لعمر و عبد سلیم) زکوٰۃ کے لئے قاعدہ شرعیہ یہ ہے کہ جس ماہ میں آدمی کے پاس اتنا مال آ جائے جس پر زکوٰۃ لاگو ہوتی ہے تو وہاں سے حساب کر کے ایک سال گزرنے پر زکوٰۃ دی جائے تو سال کے بعد جو بھی مہینہ آئے اس میں زکوٰۃ دی جائے ہر شخص کے لیے رجب کے مہینہ کی زکوٰۃ کے لیے مختص نہ کیا جائے۔بہرکیف رجب کے مہینہ میں مخصوص نماز،روزہ اور زکوٰۃ نکالنے کے متعلق کوئی صحیح بات موجود نہیں۔ روایت کی وضاحت سوال:میں نے ایک مسجد میں وضو کی دعا"بسم اللہ والحمدللہ"لکھی ہوئی دیکھی ہے اور اس پر مجمع الزوائد کا حوالہ تھا،کیا یہ روایت صحیح ہے؟(ایک سائل 398 جہانزیب بلاک اقبال ٹاؤن لاہور) جواب:مجمع الزوائد میں یہ روایت طبرانی کے حوالہ سے علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے درج کی ہے اور اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔طبرانی 1/73 میں مروی اس روایت کی سند میں ابراہیم بن محمد البصری منکر الحدیث ہے دیکھیں میزان 1/56 المغنی فی الضعفاء 161 دیوان الضعفاء 247،للذہبی،حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نتائج الافکار 1/227 میں اسے ضعیف قرار دیا ہے اور لسان المیزان 1/98 میں اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔اسی طرح علامہ محمد طاہر پٹنی رحمۃ اللہ علیہ نے تذکرۃ الموضوعات ص 31 میں اس روایت کو منکر ہی قرار دیا ہے۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں