کتاب: تفہیم دین - صفحہ 418
اے اللہ کے رسول میں آپ کے حراسہ کے لئے حاضر ہوا ہوں۔عائشہ فرماتی ہیں:پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔ (تاریخ مدینہ منورہ 1/300 صحیح البخاری باب الحراسۃ 1/303) حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں مسائل کا استنباط کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دشمن سے بچاؤ کے لئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا صحیح ہے۔(2) لوگوں پر ضروری ہے کہ وہ اپنے سلطان و امیر کے قتل کی ڈر کی وجہ سے پہرہ دیں۔(فتح الباری 6/61) اسی طرح قیس بن سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بطور محافظ رہتے تھے۔(صحیح البخاری 2/1059) صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ 351،352 سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں بھی اسلحہ لایا جا سکتا ہے مگر اس کا ادب یہ ہے کہ اس کے پھولے کو پکڑ کر رکھے تاکہ کسی مسلمان کو زخمی نہ کرے،لہذا مساجد غیر مساجد میں اسلحہ اپنی حفاظت کے لئے لایا جا سکتا ہے اور اسباب کے تحت باڈی گارڈز،چوکیدار وغیرہ رکھنے درست ہیں۔ بینک کی چوکیداری سوال:بینک کی نوکری حرام ہے جو سود کے کام میں شامل ہے آپ یہ بتا دیں کہ بینک کی چوکیداری کی نوکری کیا جائز ہے؟(ابو عثمان) جواب:بینک میں کام کرنے والے مینجر وغیرہ چونکہ سودی کاروبار میں شریک ہونے کی وجہ سے لعنت کے حقدار بن جاتے ہیں،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے،سود کھلانے والے،سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت کی ہے اور انہیں برابر قرار دیا ہے۔(صحیح مسلم 1098) اس میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ سود کھانے اور کھلانے پر لعنت کے ساتھ سود لکھنے والے اور گواہوں پر لعنت کیوں ہے؟ نہ انہوں نے سود لیا اور نہ ہی سود دیا،یاد رہے کہ اس پر لعنت سودی معاملے میں تعاون کی وجہ سے ہے اور گناہ پر تعاون حرام