کتاب: تفہیم دین - صفحہ 359
(القلم۳۵،۳۶) "کیا ہم مسلمانوں کو مجرمین(کفار)کی طرح بنا دیں تمہیں کیا ہو گیا کیسے فیصلے کرتے ہو۔اور دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا﴾(النساء۱۴۱) "اور اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے مومنوں پر ہرگز کوئی راہ نہیں بنائے گا۔" ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُونَ ﴾(السجدۃ ١٨) "کیا پس مومن فاسق کی طرح ہو سکتا ہے دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔" یہ آیات بینات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کافر مسلمان کے مساوی نہیں ہو سکتا اور جب ان دونوں میں تساوی نہیں تو مسلمان سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی اس بات کی مزید توضیح کرتا ہے۔عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ وَيَرُدُّ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ أَلَا لَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِه)(ابوداؤد،کتاب الجھاد 2701) مسلمانوں کے خون برابر ہیں ان کا ادنیٰ سا آدمی ذمہ و امن دے سکتا ہے اور دور جگہ کا رہنے والا مسلمان پناہ دے سکتا ہے اور یہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں یکمشت ہوتے ہیں۔طاقتور اور تیز رفتار سواریوں والا کمزور سواریوں والے کے قریب رہے اور جب لشکر میں سے کوئی ٹکڑے نکال کر مال کما دے تو باقی لوگوں کو اس میں شریک کرے اور مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ ذمی جس سے عہد لیا گیا ہو۔مسند احمد میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔(بخاری،احمد،ابوداؤد،نسائی،ترمذی)