کتاب: تفہیم دین - صفحہ 357
لئے کہ شوہر نے مجھے ایسے گھر میں نہیں چھوڑا جس کے وہ مالک رہے ہوں اور نہ نفقہ ہی چھوڑا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو ہاں کر دی اور میں واپس ہو گئی یہاں تک کہ جب میں حجرہ یا مسجد میں پہنچی تو آپ نے مجھے بلایا اور کہا:تو نے کیسے کہا۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا واقعہ دوبارہ سنایا اور اپنے شوہر کا حال ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:تم اپنے گھر میں ہی رہو یہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہو جائے۔وہ کہتی ہیں کہ پھر میں نے اس گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری اور کہتی ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو انہوں نے مجھے بلوا کر اس بارے میں دریافت کیا،میں نے انہیں بتایا تو اسی کے مطابق انہوں نے فیصلہ کیا اور اس کی پیروی کی۔(ترمذی،کتاب الطلاق واللعان باب ما جاء این تعتد المتوفی عنہا زوجھا(1204)موطا مالک،احمد،ابوداؤد،ابن ماجہ،نسائی،دارمی وغیرھا) امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہم کا عمل ہے انہوں نے عدت گزارنے والی عورت کے لیے جائز نہیں رکھا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر سے عدت پوری ہونے سے پہلے منتقل ہو۔ امام سفیان ثوری،امام شافعی،امام احمد،امام اسحاق بن راہویہ کا یہی موقف ہے اور بعض اہل علم صحابہ وغیرہم نے کہا کہ عورت جہاں چاہے عدت گزار لے اگر وہ اپنے خاوند کے گھر عدت نہ گزارنا چاہے۔امام ترمذی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ترین ہے یعنی عورت اسی گھر میں عدت گزارے جہاں وہ اپنے شوہر کی رفاقت میں قیام پذیر تھی۔(ترمذی مع تحفۃ الاحوذی 4/441،442) موطا میں امام محمد نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ البتہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مجبوری کے تحت کام کاج کے لئے دن کے وقت گھر سے نکل سکتی ہے اور رات اسی گھر میں آ کر بسر کرے گی اس کے لئے انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ