کتاب: تفہیم دین - صفحہ 355
ہوتی۔وہ بری الذمہ ہے،چنانچہ امام بخاری علیہ الرحمۃ نے اپنی صحیح میں یہ باب قائم کیا ہے کہ عورت کو جب زنا پر مجبور کیا جائے تو اس پر کوئی حد نہیں لاگو ہو گی۔" حضرت حافظ صاحب نے جس باب کی طرف اشارہ کیا ہے۔تو یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح البخاری کتاب الاکراہ میں باب نمبر 6 منعقد کیا ہے۔اس باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:مجھے نافع نے خبر دی ہے انہیں صفیہ بنت ابی عبید نے بتایا کہ حکومت کے غلاموں میں سے ایک غلام نے خمس کے حصے کی ایک باندی سے زنا کیا اور اس کے ساتھ زبردستی صحبت کر کے اس کی بکارت زائل کر دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسی غلام پر حد جاری کی اور اسے شہر بدر کر دیا اور اس باندی پر حد نہیں لگائی کیونکہ غلام نے اس کے ساتھ زبردستی کی تھی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خودکشی سے اجتناب کرنا چاہیے اور اگر کسی عورت سے جبر و اکراہ کی صورت میں بدکاری کی گئی تو وہ عورت اللہ کے ہاں بری الذمہ ہے اس پر کوئی حد و سزا نہیں البتہ مجرموں کو شرعی حد لگائی جائے گی۔اگر کفار و مشرکین مسلمان خواتین کی عصمت دری کریں اور ان کی عفت و پاکدامنی کو داغ دار کریں تو دوسرے مسلمان بھائیوں پر ان عورتوں کی عفت و عصمت کا بدلہ لینا واجب ہے اگر مسلمان اپنی اسلامی بہنوں کا بدلہ نہیں لیتے تو اللہ کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔جہاد جو دین اسلام کی چوٹی ہے اس کے مقاصد میں سے یہ امر بھی ہے جس سے آج امت مسلمہ چشم پوشی کر رہی ہے اگر جہاد فی سبیل اللہ کو صحیح معنوں میں جاری کر دیا جائے تو مسلمان خواتین کو یہ نوبت پیش نہ آئے۔افسوس صد افسوس کہ آج اتنی تعداد میں مسلم حکمران،ممالک اور عوام موجود ہیں لیکن جہاد فی سبیل اللہ کے فریضے کو سمجھنے سے عاری ہیں اور اپنی دنیاوی خواہشات اور لذات کے پیچھے لگ کر اس فریضے سے غفلت برت رہے ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں جہاد کو کھڑا کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے اور مسلم خواتین کی عفت و عصمت کو محفوظ فرمائے۔آمین۔