کتاب: تفہیم دین - صفحہ 338
لے اور اگر چاہے تو چھونے سے پہلے طلاق دے ڈالے۔یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔(صحیح البخاری(52018)صحیح مسلم) جمہور ائمہ محدثین کے ہاں محل استدلال اس حدیث میں"مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا"کے الفاظ ہیں کہ آپ نے رجوع کا حکم دیا اور رجوع تبھی ہوتا ہے جب طلاق شمار کی گئی ہو چونکہ رجوع کا شرعی معنی یہی ہے۔شرعی معنی کو لغوی معنی پر مقدم کیا جاتا ہے،اسی طرح نافع ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے،وہ بیان کرتے ہیں کہ"ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی اہلیہ کو طلاق دی اور وہ حائضہ تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے یہ بات بیان کی تو آپ نے اسے ایک طلاق قرار دیا۔" (مسند طیالسی 67،دارقطنی 3867،بیہقی 7/426،فتح الباری 9/303) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"یہ حدیث حائضہ عورت کی طلاق میں جو اختلاف ہے اس پر نص ہے،اس کی طرف لوٹنا واجب ہے۔"اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کے بیٹے سالم(نسائی 3391،مسند احمد 6141،مسلم 1471)یونس بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ(صحیح البخاری 5252 صحیح مسلم 11/130)سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ(صحیح البخاری 5253،تغلیق التعلیق 4/434)عامر شعبی رحمۃ اللہ علیہ(بیہقی 7/326،دارقطنی 3873)نے طلاق کے واقع ہونے کا ذکر کیا ہے۔گویا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے چھ ثقہ راویوں نے طلاق کے واقع ہونے کا ذکر کیا ہے،صرف ابوداؤد وغیرہ میں ابو الزبیر کی روایت میں"لم يرها شيئاً"کے الفاظ موجود ہیں جو کہ طلاق کے عدم وقوع میں صریح نہیں ہیں،امام شافعی،امام خطابی وغیرہما کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے درست طریقہ نہیں سمجھا۔درست یہ تھا کہ حالت طہر جس میں جماع نہ کیا ہو اس میں طلاق دیتے،یہ مطلب نہیں کہ اسے طلاق شمار نہ کیا کیونکہ چھ ثقہ راویوں کی روایت میں طلاق کے واقع ہونے کی صراحت ہے،لہذا یہی بات صحیح اور درست ہے ایک تو اس کے راوی کثیر اور واثق ہیں۔دوسرے نمبر پر اس میں طلاق کے واقع ہونے کی صراحت ہے جبکہ دوسری جانب صرف ابو الزبیر کی روایت ہے اور وہ بھی واضح نہیں۔