کتاب: تفہیم دین - صفحہ 337
جواب:حالت حمل میں دی گئی طلاق واقعی ہوتی ہے اور وضع حمل سے پہلے مرد کو رجوع کا حق ہوتا ہے بشرطیکہ طلاق دہندہ کی پہلی یا دوسری طلاق ہو اور عدت گزر جانے پر نکاح ختم ہو جاتا ہے،صورت مذکورہ میں عدت کے اندر صلح نہیں ہو ئی،لہذا یہ طلاق واقع ہو کر مؤثر ہو چکی ہے،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے ڈالی۔عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر اسے طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے۔"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے اور حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔"(الطلاق) اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہر حاملہ عورت کی عدت حمل ہے،لہذا یہ طلاق موثر ہو چکی ہے اور نکاح ختم ہو گیا ہے اور اگر طلاق دہندہ کی پہلی یا دوسری طلاق ہے تو دوبارہ نکاح کے ذریعے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔واللّٰه اعلم وعلمه اتم واكمل دورانِ حیض طلاق دینا سوال:کیا دوران حیض دی گئی طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں قرآن و سنت کی رو سے واضح فرمائیں۔(محمد رفیق مغل ڈھوک الٰہی بخش عمر روڈ راولپنڈی) جواب:قرآن و سنت کی رو سے دوران حیض دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر جمہور آئمہ محدثین رحمہم اللہ اجمعین کا یہی موقف ہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی اور وہ حالت حیض میں تھی،عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: (مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا) اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کر لے،پھر اسی حالت میں رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے،پھر حائضہ ہو پھر پاک ہو جائے،پھر اگر چاہے تو اس کے بعد روک