کتاب: تفہیم دین - صفحہ 321
ہے: ﴿وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ﴾۔۔۔(البقرۃ:221) "اور مشرکین کو نکاح کر کے نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں البتہ غلام مومن مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں اچھا لگے۔" اس آیت کریمہ کے تحت امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (فى هذه الآية دليل بالنص على أن لا نكاح إلا بولى) (تفسیر قرطبی 3/49) یہ آیت اس بارے میں دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں۔مشہور حنفی عالم مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں:(لَا تُنكِحُوا)خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو حکم خود عورتوں کو براہ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جاؤ،یہ طرز خطاب بہت پر معنی ہے صاف اس پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح مردوں کے واسطے سے ہونا چاہیے۔(تفسیر ماجدی 75)ایک اور مقام پر ارشاد الٰہی ہے: ﴿إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ﴾(البقرۃ:232) "اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں۔ یہ آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ کو ایک طلاق ہو گئی اور ان کی عدت گزر گئی،عدت کے گزر جانے کے بعد ان کا آپس میں صلح کا ارادہ بن گیا تو معقل رضی اللہ عنہ جو اپنی بہن کے ولی تھے وہ اس میں رکاوٹ بن گئے۔حافظ ابن حجر اس کے متعلق فرماتے ہیں: