کتاب: تفہیم دین - صفحہ 319
﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا﴾(الاحقاف۱۵:۴۶) "اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنم دیا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس(30)مہینے ہے۔" اس آیت کریمہ میں حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت اڑھائی سال بتائی گئی ہے جس میں چوبیس مہینے(دو سال)مدت رضاعت ہے۔جیسا کہ خود قرآن حکیم نے واضح کیا ہے(سورۃ لقمان:14)میں ارشاد فرمایا:﴿وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ ﴾اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے اور(سورۃ بقرہ 2/233)میں فرمایا ہے:﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ﴾ مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو۔ان آیات بینات نے واضح کر دیا کہ مدت رضاعت دو سال(چوبیس مہینے)ہے،سورۃ احقاف میں جو حمل اور دودھ چھڑائی کی مدت 30 ماہ بتائی ہے اس میں 24 ماہ مدت رضاعت اور چھ ماہ حالت حمل کے ہیں۔لہذا شادی کے چھ ماہ بعد اگر بچہ پیدا ہو تو وہ حلال ہوتا ہے۔امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وقد استدل على رضى الله عنه بهذه الآية مع التى فى لقمان﴿وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ﴾ وقولہ تبارک وتعالیٰ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا على ان اقل مدة الحمل ستة اشهر وهو استنباط قوى و صحيح وافقه عليه عثمان وجماعة من الصحابة رضى اللّٰه عنهم (تفسیر ابن کثیر 7/207،258) اور تحقیق علی رضی اللہ عنہ نے سورۃ احقاف کی اس آیت کو سورۃ لقمان کی آیت