کتاب: تفہیم دین - صفحہ 312
البیوع 2168 صحیح مسلم کتاب العتق 1504) امام ابن حزم نے محلی 9/118 میں لکھا ہے کہ وٹہ سٹہ کا نکاح حلال نہیں ہے اور وٹہ سٹہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی زیر ولایت لڑکی سے اس شرط پر شادی کرے کہ وہ دوسرا آدمی اپنی زیر ولایت لڑکی کو اس طرح اس کے ساتھ بیاہ دے کہ اس میں کوئی فرق نہیں کہ انہوں نے دونوں میں سے ہر ایک کے لیے مہر ذکر کیا ہو یا ایک کا مہر ذکر کیا ہو دوسری کا نہ کیا ہو یا دونوں میں سے کسی کا بھی حق مہر ذکر نہ کیا ہو یہ تمام صورتیں برابر ہیں۔ایک حدیث میں ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمان بن الحکم کو اپنی بیٹی نکاح میں دی اور عبدالرحمان بن الحکم نے عباس کو اپنی بیٹی نکاح میں دے دی اور ان دونوں نے مہر بھی مقرر کیا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے(امیر مدینہ)مروان کو خط لکھ کر حکم دیا کہ دونوں نکاحوں میں جدائی کر دی جائے اور اپنے خط میں لکھا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔ (سنن ابی داؤد:کتاب النکاح باب فی الشغار 2075 مسند احمد 4/94) امام ابن حزم رحمۃ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:یہ معاویہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اس نکاح شغار کو فسخ کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی ان کی مخالفت کرنے والا نہیں ہے،اگرچہ اس میں دونوں نے مہر کا ذکر بھی کیا ہے تو انہوں نے نکاح کو فسخ کر دیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:یہ وہ نکاح ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اس سے تمام اشکال رفع ہو جاتے ہیں۔(المحلی 9/122) لہذا وٹہ سٹہ کی شادی جو مشروط طور پر سر انجام دی جاتی ہے وہ شرعی طور پر درست نہیں خواہ اس میں مہر رکھا گیا ہو یا نہ رکھا گیا ہو یہ اتفاقی چیز ہے ایسے نکاح سے اجتناب کرنا چاہیے۔