کتاب: تفہیم دین - صفحہ 307
المسیب فرمانے لگے:تم نے ہمیں خبر کیوں نہ دی ہم اس کے جنازے میں شرکت کرتے،پھر فرمانے لگے:کیا تم نے کسی نئی عورت سے شادی کی ہے؟ میں نے کہا؛ اللہ آپ پر رحم کرے مجھے کون رشتہ دے گا میں تو صرف دو یا تین درہموں کی ملکیت رکھتا ہوں۔امام سعید بن المسیب نے کہا:میں تمہیں رشتہ دوں گا،میں نے کہا:آپ ایسا کریں گے؟ انہوں نے کہا:ہاں،پھر انہوں نے اللہ کی حمد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھا اور مجھے دو یا تین درہم حق مہر کے عوض نکاح کر دیا،میں اٹھا اور فرط مسرت کی وجہ سے مجھے کوئی کام نہ سوجھا،میں اپنے گھر گیا اور سوچنے لگا کس سے قرض لوں۔میں نے مغرب کی نماز ادا کی اور گھر لوٹا اور اکیلا ہی روزے کی حالت میں تھا،میں نے اپنا روزہ روٹی اور زیتون سے افطار کیا تو میرے دروازے پر دستک ہوئی،میں نے کہا:کون؟ اس نے کہا:سعید۔میں ہر اس شخص کے بارے سوچنے لگا جس کا نام سعید تھا۔سوائے سعید بن المسیب کے،اس لئے کہ سعید بن المسیب چالیس سال سے اپنے گھر اور مسجد کے درمیان ہی دیکھے گئے تھے۔میں باہر نکلا تو سعید بن المسیب کھڑے تھے،میں نے کہا:اے ابو محمد(سعید بن المسیب کی کنیت)آپ مجھے پیغام بھیج دیتے میں خود حاضر ہو جاتا تو انہوں نے کہا نہیں تم زیادہ حق رکھتے ہو کہ تمہارے پاس آیا جائے تم اکیلے آدمی تھے میں نے تمہارے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کی ہے۔اور میں نے ناپسند کیا کہ تم اکیلے رات بسر کرو،یہ تمہاری عورت ہے وہ ان کے پیچھے کھڑی تھی۔پھر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کے اندر کر دیا اور دروازہ بند کر دیا،عورت شرم و حیا کا پتلا تھی۔میں نے دروازہ چیک کیا،پھر پیالہ چراغ کے سائے تلے رکھ دیا تاکہ وہ اسے نہ دیکھ سکے،پھر میں گھر کی چھت پر چڑھ گیا،پڑوسیوں کو بلایا،وہ آ گئے کہنے لگے:تمہاری کیا حالت ہے؟ میں نے انہیں بتایا،وہ اس کے پاس آئے اور میری ماں کو بھی خبر پہنچ گئی،وہ آئیں،کہنے لگیں:میرا چہرہ تیرے چہرے پر حرام ہو اگر تم اس کے قریب جاؤ تاوقتیکہ میں تین دن اس کا امتحان لے لوں،میں تین دن رکا رہا،پھر اس پر داخل ہوا۔وہ تمام لوگوں سے زیادہ حسینہ و جمیلہ اور سب سے زیادہ قرآن کی حافظہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمہ اور