کتاب: تفہیم دین - صفحہ 306
اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے موقعہ پر اسماء بنت یزید بن السکن نے انہیں زیب و زینت کی تھی جیسا کہ مسند احمد 6/438،452 وغیرہ میں موجود ہے۔لہذا دلہن کی زیب و زینت،بیوٹی پارلر یا عام خواتین کا رنگ والی خوشبو استعمال کرنا جیسے زعفران،سرخی وغیرہ بالکل جائز و درست ہے۔ مکلاوے کا تصور غلط ہے سوال:شادی ہو جانے کے بعد جو آج کل رواج بن گیا ہے کہ پہلے لڑکے والے لڑکی لے جاتے ہیں اور پھر دوسرے دن لڑکی کے والدین آ جاتے ہیں پھر لے جانا کیا سنت ہے؟(محمد عبداللہ شرقپور) جواب:ایک مسلمان کے لیے زندگی گزارنے کا نمونہ و اسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،آپ کی سیرت ہمارے لیے ہر مسئلہ میں راہنمائی کا کام دیتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی شادیاں بھی کیں اور اپنی بیٹیوں کی بھی۔یہ جو مکلاوے کا رواج ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں،لڑکی اور لڑکا شادی کے بعد اپنی مرضی سے جب چاہیں اپنے سسرال یا عزیز و اقارب کو ملنے جائیں،دنوں کی کوئی قید اور پابندی شرع میں وارد نہیں۔اور سلف صالحین سے بھی اس طرح شادی کے دوسرے دن ہی لڑکی کو لے جانا ثابت نہیں صرف یہاں ایک واقعہ باعث نصیحت درج کرتے ہیں۔امام سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ جو اہل مدینہ میں سے بڑے عالم اور سید التابعین میں شمار ہوتے ہیں ان کی بیٹی کا رشتہ خلیفہ عبدالملک نے اپنے بیٹے ولید کے لیے طلب کیا جو انہوں نے دینے سے انکار کر دیا اور انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے ایک شاگرد کثیر بن المطلب بن ابی وداعہ سے کی۔ابن ابی وداعہ کا بیان ہے کہ میں سعید بن المسیب کے ہاں بیٹھا کرتا تھا تو پھر کچھ دن میں ان کی مجلس میں حاضر نہ ہوا،دوبارہ میری حاضری پر انہوں نے سوال کیا تم کہاں تھے؟ میں نے کہا:میری اہلیہ فوت ہو گئی تھی میں اس وجہ سے کچھ مشغول و مصروف ہو گیا۔امام سعید بن