کتاب: تفہیم دین - صفحہ 300
کو اس کی زیر ولایت لڑکی کے نکاح کے لئے پیغام بھیجتا اور مہر ادا کر کے نکاح کر لیتا۔(صحیح البخاری)اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح شریعت میں نہیں ہے۔اسی طرح مسند احمد 4/394 حاکم 2/129 وغیرہما میں حدیث ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا،لہذا پہلا نکاح جو ولی کی اجازت کے بغیر قائم کیا گیا وہ درست نہ تھا اس میں تفریق کروا دینی چاہیے۔اب جو ان دونوں میں جدائی ہو چکی ہے اور دس ماہ بیت چکے ہیں تو عورت اپنے ولی کے ذریعے جہاں چاہے نکاح کروا سکتی ہے،اسے نکاح کرنے سے کوئی شخص بھی روکنے کا مجاز نہیں رہا۔پہلے جس شخص سے نکاح کیا ہوا تھا اس سے تحریر کے مطالبے کی حاجت ہی نہیں کیونکہ ان کا نکاح ولی کے نہ ہونے کی وجہ سے منہدم تھا اور یہ قانونی کاروائی پہلے چونکہ نہیں ہوئی تھی اس لئے ان کی جدائی کے لئے بھی اس کی حاجت نہیں اور دنیا کی کسی بھی عدالت میں وہ قانونی لحاظ سے اپنے نکاح کو ثابت ہی نہیں کر سکتا۔ اولاد کی تمنا میں شادی کرنا سوال:کیا اولاد کی آرزو کے لئے شادی کرنی چاہیے،کتاب و سنت میں اس کے بارے کیا رہنمائی کی گئی ہے؟(حاجی اسلم صاحب،سبزہ زار لاہور) جواب:شادی کے بعد خاوند اور بیوی کی بڑی آرزو اور تمنا نیک اولاد کا حصول ہے اور یہ ایک فطری امر ہے،انسان اس بات کا خواہش مند ہے کہ اللہ اسے ایک ایسا وارث عطا کرے جو اس کے بعد اس کی املاک،مال و متاع اور زر و زمین کا صحیح تصرف کرے اور اس کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ممد و معاون اور صحیح جانشین بن سکے۔اولاد نسل انسان کی بقاء کا سبب و ذریعہ ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا بلکہ انسان کو اس کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا ہے: "اب تم اپنی بیویوں سے شب باشی کیا کرو اور اللہ نے جو تمہارے لئے لکھ دیا اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو۔"(البقرہ:187)