کتاب: تفہیم دین - صفحہ 299
مشرکین کو نکاح کر کے نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور البتہ غلام مومن مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ اچھا لگے۔"(البقرۃ:221) امام قرطبی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:"یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں"۔(تفسیر قرطبی 3/49) مشہور دیوبندی حنفی عالم عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں:(لَا تُنكِحُوا)خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو،حکم خود عورتوں کو براہ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جاؤ،یہ طرز خطاب بہت پُر معنی ہے صاف اس پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح مردوں کے واسطہ سے ہونا چاہیے۔"(تفسیر ماجدی 89) دوسرے مقام پر فرمایا کہ"اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں ان کے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں۔(البقرۃ:232) حافظ ابن حجر اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں:"یہ آیت ولی کے معتبر ہونے پر سب سے زیادہ واضح دلیل ہے اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہوتا تو اس کے روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا اور اگر عورت کے لئے اپنا نکاح کرنا خود جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی۔"یہ آیت کریمہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ کے بارے نازل ہوئی تھی۔(فتح الباری 9/94)تقریبا یہی بات تفسیر بغوی 2/211 المغنی لابن قدامہ 7/338 ابن کثیر 1/302 اور تفسیر طبری 2/488 میں موجود ہے۔ دور جاہلیت میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے کئی طریقے رائج تھے،صرف ایک طریقہ ایسا تھا جس میں ولی ہوتا تھا،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نکاح کی ایسی صورتیں جو ولی کے بغیر تھیں،ان کے بارے میں فرماتی ہیں:"جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاح منہدم کر دئیے سوائے اس نکاح کے جو آج لوگوں میں رائج ہے اور وہ نکاح ایسا ہے جس میں ایک آدمی دوسرے آدمی