کتاب: تفہیم دین - صفحہ 288
تھا وہ آج بڑی شدت سے لڑا ہے۔ بالآخر رات کے وقت وہ زخموں پر صبر نہ کر سکا اور اپنے آپ کو قتل کر بیٹھا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے کہا:اللّٰه اكبر اشهد انى عبداللّٰه ورسوله(اللہ سب سے بڑا ہے میں شہادت دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں) پھر آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انہوں نے لوگوں میں اعلان کیا کہ مسلمان کے سوا کوئی بھی جنت میں نہیں داخل ہو گا۔اور بلاشبہ اللہ اس دین کی مدد فاجر آدمی سے بھی لے لیتا ہے۔اس مفہوم کی کئی ایک احادیث مجمع الزوائد کتاب الجھاد باب فی من یؤیدھم الاسلام 5/548 تا 550 جدید میں موجود ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا نہ ہوتا کہ"بےشک اللہ اس دین کی مدد فرات کے کنارے ربیعہ قبیلے کے نصاریٰ سے لے لے گا تو میں کوئی اعرابی نہ چھوڑتا مگر اسے قتل کر دیتا یا وہ مسلمان ہو جاتا۔‘‘ (مسند بزار 1723۔مجمع الزوائد 9565۔ابو یعلی 236) مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ بوقت ضرورت اگر کافر سے مسلمان کو مدد حاصل کرنی پڑے تو مدد لی جا سکتی ہے،امام شافعی نے کتاب الام 4/276 میں بھی تقریبا یہی موقف اختیار کیا ہے اور علامہ البانی نے التعلیقات الرضیہ علی الروضۃ الندیۃ 3/443 میں اسے جید قرار دیا ہے،اسی طرح دیکھیں الروضۃ الندیۃ 3/542،443 مع التعلیقات الرضیہ،السیل الجرار 3/717 بیہقی 9/37،حنفی فقہاء کا موقف ملاحظہ ہو رد المحتار لابن عابدین شامی 4/147،148 شرح السیر الکبیر للسرخسی 4/1516،حنبلی مذہب کے لئے المغنی لابن قدامہ 9/256 اور اس مسئلہ کی مفصل بحث کے لئے کتاب"صد عدوان الملحدین"للشیخ ربیع بن ہادی المدخلی کا مطالعہ مفید رہے گا۔واللہ اعلم۔امام نووی فرماتے ہیں: (وقال الشافعي وآخرون:إن كان الكافر حسن الرأي في المسلمين ودعت الحاجة إلى الاستعانة به أستعين به وإلا فيكره،وحمل