کتاب: تفہیم دین - صفحہ 287
گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مخیریق بہترین یہودی تھا۔(الرحیق المختوم ص 455) اس کی موت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اموال کو قبضے میں لے لیا اور عام صدقات مدینہ اسی مال سے ہوتے تھے(مزید دیکھیں سیرۃ ابن ہشام 2/26 سیرۃ ابن ہشام مع روض الانف 2/375 مطبوعہ بیروت البدایہ والنہایہ 4/32 سیرۃ النبی اردو لابن کثیر 2/59 طبقات ابن سعد 1/51 تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر 10/229) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی کافر مسلمان کے حق میں بہتر ہو تو اسے لڑائی میں حسب ضرورت شریک کیا جا سکتا ہے اور اس کے مال و متاع کو اسلام کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (4) ذی مخمر صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:تم رومیوں کے ساتھ امن والی صلح کرو گے پھر تم اور وہ ایک دشمن سے لڑائی کرو گے تم مدد کئے جاؤ گے اور صحیح سلامت رہو گے غنیمت کا مال پاؤ گے پھر تم واپس پلٹو گے یہاں تک کہ ٹیلے والی چراگاہ کے پاس اترو گے تو عیسائیوں میں سے ایک آدمی صلیب اٹھا کر کہے گا صلیب غالب آ گئی اس پر مسلمانوں میں سے ایک آدمی غضبناک ہو کر اسے توڑ ڈالے گا اس وقت روم کے عیسائی غدر کریں گے،یعنی صلح والا معاہدہ توڑ ڈالیں گے،ہر جھنڈے کے ساتھ دس ہزار آدمی ہوں گے اور اللہ مسلمانوں کی جماعت کو شہادت کے ساتھ عزت عطا کرے گا۔(مسند احمد 4/91،5/372م409۔ابوداؤد 4292،4293)اور اس معنی کی ایک حدیث صحیح البخاری 3176 میں بھی موجود ہے۔ اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین و کفار سے صلح کر کے مشترکہ دشمن کے ساتھ لڑا جا سکتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ جب چاہے اپنے دین کی مدد کسی فاسق و فاجر عیسائی کافر سے لے لے جیسا کہ صحیح البخاری 3062 میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے بارے کہا:یہ جہنمی ہے،پھر جنگ کے وقت وہ بڑی شدت سے لڑا اور زخمی ہو گیا،آپ سے کہا گیا:یا رسول اللہ جس کے بارے میں آپ نے جہنمی ہونے کا کہا