کتاب: تفہیم دین - صفحہ 286
مدینہ میں مشرک سے مدد لینا ناجائز ہو گئی تھی،ہم وہ دلائل ذکر کرتے ہیں جس میں مدنی زندگی میں مشرکین و کفار سے حسب حاجت تعاون لینے پر رہنمائی ملتی ہے۔ (1) غزوہ حنین میں جانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ سے زرہیں عاریۃ لی تھیں(مسند احمد 3/1400،40،6/360 ابوداؤد(3062)نسائی کبریٰ(410)مستدرک حاکم 2/47)غزوہ حنین،فتح مکہ کے بعد 8ھ میں ہوا اور صفوان اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ (2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ساتھ جو صلح حدیبیہ کی اس معاہدے کی شرائط میں سے ایک شق یہ تھی جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیف بننا چاہے وہ ان کا حلیف بن جائے اور جو قریش کا حلیف بننا چاہے اسے بھی اجازت ہے،بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنو بکر کے لوگ قریش کے حلیف بن گئے۔(السیرۃ لابن ہشام 3/318 السیرۃ لابن کثیر 3/321)یہ صلح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان تھی بنو خزاعہ کے مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیف بننا پسند کیا جس کا تقاضا تھا کہ وہ لڑائی میں مسلمانوں کے مددگار ہوں گے۔اور جب بنو خزاعہ پر ان کے دشمن حملہ کریں گے تو مسلمان ان کی مدد کریں گے پھر یہ ہوا کہ بنو خزاعہ پر بنو بکر نے حملہ کر دیا اور قریشیوں نے ان کا ساتھ دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدلہ لینے کے لئے ان پر چڑھائی کر دی اور یہ فتح مکہ کا سبب بن گیا،تفصیل کے لئے دیکھیں:الرحیق المختوم غزوہ فتح مکہ ص 363۔اس واقعہ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ حسب ضرورت کفار سے معاہدہ کر کے اپنے دشمنوں کے ساتھ لڑا جا سکتا ہے۔ (3) مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں:(احد کے میدان میں)مقتولین میں بنو ثعلبہ کا ایک یہودی تھا اس نے اس وقت جبکہ جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے اپنی قوم سے کہا اے جماعت یہود! خدا کی قسم تم جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد تم پر فرض ہے،یہود نے کہا مگر آج سبت(سنیچر)کا دن ہے اس نے کہا تمہارے لئے کوئی سبت نہیں پھر اس نے اپنی تلوار لی،سازوسامان اٹھایا اور بولا اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے وہ اس میں جو چاہیں گے کریں گے،اس کے بعد میدان جنگ میں گیا اور لڑتے ہوئے مارا