کتاب: تفہیم دین - صفحہ 285
طرف ہجرت کا حکم دیا تاکہ انہیں اس کافر حکومت کی جانب سے حمایت نصیب ہو جائے اس وقت نجاشی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ (5) اسی طرح آپ کا مشرک چچا ابو طالب جس نے مرتے دم تک کلمہ طیبہ نہیں پڑھا تھا اس کی حمایت و نصرت آپ کو حاصل رہی۔ (6) ہجرت مدینہ سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایام ہائے مصائب میں ابن الدغنہ کافر کی پناہ لی۔(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار 3905) (7) جب آپ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو عبداللہ بن اریقط الدیلی جو مشرک تھا اور راستوں کا بڑا ماہر تھا اسے راستہ بتانے کے لئے اجرت پر رکھ لیا۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار 3905) اس میں بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جب کسی مشرک پر اعتماد ہو کہ وہ دھوکہ نہیں دے گا تو اس سے تعاون لیا جا سکتا ہے۔اسے راستے کا گائیڈ بنایا جا سکتا ہے۔کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ تیار کر رکھا تھا اگر کفار سے راستے میں آمنا سامنا ہو جاتا اور وہ آپ کی مدد کرتا تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کہتے کہ تم مشرک ہو ہماری مدد نہ کرو۔ (8) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے وقت سراقہ بن مالک سے بھی مدد لی،سراقہ اس وقت مشرک تھا وہ فتح مکہ کے دن اسلام لایا تھا۔ (الاصابۃ 3/35 اسد الغابۃ رقم 1900) آپ نے سراقہ کو امان لکھ کر دی وہ جسے بھی راستہ میں ملتا کہتا تم کفایت کئے گئے ہو وہ ادھر نہیں ہیں اور جسے بھی ملتا اسے واپس لوٹا دیتا۔(صحیح البخاری 3905،3906) یہ تو چند ایک واقعات تھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مکی زندگی میں کفار سے حسب ضرورت تعاون لیا اور مسلم و مسند احمد مسند الدارمی کی حدیث عائشہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے میدان میں لڑنے والے مشرک سے آپ نے کہا تھا:واپس پلٹ جاؤ۔ہم مشرک سے ہرگز مدد نہیں لیں گے۔اس سے شبہ ہو سکتا ہے کہ