کتاب: تفہیم دین - صفحہ 283
کریں۔(عبیداللہ طاہر مہر فاروقہ،سرگودھا) جواب:علماء محدثین رحمہم اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان جب کفار کی طرف سے مطمئن نہ ہوں اور یہ ڈر لاحق ہو کہ یہ لوگ ہمارے دشمنوں کے لئے ہمارے راز افشاء کر دیں گے اور ہماری قوت کو کمزور کر دیں گے تو ایسی صورت میں کفار و مشرکین سے استعانت نہیں لی جائے گی۔کیونکہ ایسی حالت میں استعانت مقصود و مطلوب کی نقیض ہو گی۔ایسے کفار جن پر اعتماد نہ ہو انہیں بالخصوص لشکروں کی تیاری میں،خندقیں اور سرنگیں کھودنے میں،قلعے اور بنکرز تعمیر میں،راستوں کی ہمواری اور اصلاح آلات و حرب میں ساتھ ملانا موت کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔البتہ اگر کسی کافر و مشرک پر اعتماد ہو اور وہ جنگ میں ہمارا حلیف ہو اور دوسرے کفار کے خلاف اور نصرت اسلام کے لیے اس کی مدد کی حاجت ہو تو اس وقت اس سے تعاون لینا راجح موقف کی رو سے درست ہے۔یہ تعاون خواہ آلات حرب کی صورت میں ہو یا مال و متاع کی شکل میں،افرادی قوت ہو یا راستے کے لئے گائیڈز ہوں اس میں کوئی قباحت نہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد بہت سے مواقع پر کفار سے کروائی ہے۔یہاں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سے بعض واقعات درج ذیل ہیں جن میں کفار سے حسب ضرورت تعاون لیا گیا ہے۔ (1) جب قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بڑھتا ہوا دیکھا اور محسوس کیا کہ لوگ دن بدن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو رہے ہیں تو انہوں نے آپ کا بائیکاٹ کیا اور آپ شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے۔اس وقت بنو ہاشم اور بنو المطلب نے آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی حمایت و نصرت میں وہ بھی شعب ابی طالب میں آپ کے ساتھ تھے۔(زاد المعاد 3/30 سیرۃ ابن ہشام 1/175 السیرۃ لابن کثیر 2/34) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نہیں فرمایا کہ بنو ہاشم اور بنو المطلب چلے جاؤ مجھے تمہاری حمایت و نصرت کی کوئی حاجت نہیں۔