کتاب: تفہیم دین - صفحہ 281
جہاد کے لئے والدین کی اجازت سوال:جہاد میں شریک ہونے کے لئے والدین کی اجازت کا شرعی طور پر کیا مسئلہ ہے کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں۔ جواب:جہاد میں شرکت کے لئے والدین کی اجازت کے متعلق دو طرح کی احادیث موجود ہیں،عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہتا تھا۔آپ نے فرمایا:کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا:ہاں،آپ نے فرمایا:پھر انہیں میں جہاد کرو۔(صحیح البخاری کتاب الجہاد) اسی طرح عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہی ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا،اس نے پوچھا:سب سے افضل عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:نماز۔اس نے کہا:پھر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:جہاد کرنا تو اس نے کہا:میرے والدین ہیں،آپ نے فرمایا:میں تجھے والدین کے ساتھ خیر کا حکم دیتا ہوں۔اس نے کہا:"والذى بعثك بالحق لاجاهدن ولا تركنهما،قال:فأنت أعلم"اس ہستی کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں ضرور جہاد کروں گا اور انہیں ضرور چھوڑ کر جاؤں گا،آپ نے فرمایا:پھر تو بہتر جانتا ہے۔(ابن حبان 4/11) اہل علم نے ان دونوں احادیث کے متعلق دو قسم کی توجیہ بیان کی ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:دونوں احادیث میں موافقت کرتے ہوئے یہ صورت نکلتی ہے کہ فرض عین جہاد پر محمول ہے۔یعنی جب جہاد فرض عین ہو تو والدین کی اجازت ضروری نہیں۔(فتح الباری 6/141) دوسری توجیہ یہ ہے کہ والدین کی اجازت والے مسئلہ کو امام یا شرع کے مکلف آدمی کے سپرد کر دیا جائے۔اب دونوں صورتوں میں مصلحت جس کا تقاضا کرے اسے مقدم کرنا واجب ہے۔انصار و مہاجرین جہاد کرتے تھے اور ہم نے ذخیرہ احادیث