کتاب: تفہیم دین - صفحہ 276
جواب:اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کو پاکیزہ اشیاء میں سے کھانے اور عمل صالح سر انجام دینے کا حکم دیا ہے اور اہل ایمان کو بھی اس حکم کی پابندی کا آرڈر دیا ہے۔حرام اشیاء کے استعمال سے منع کیا ہے۔حرام مال سے دیا گیا صدقہ و زکوٰۃ وغیرہ قبول نہیں کیا جاتا۔آج کل لوگ حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر ہر طرح کا مال استعمال کئے جا رہے ہیں۔مساجد و مدارس تک لوگ سود یا رشوت وغیرہ کی حرام کمائی استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنْ الْحَرَامِ)(بخاری بحوالہ مشکوٰۃ کتاب البیوع 2761) "لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ آدمی اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ جو چیز اس نے لی ہے وہ حلال میں سے ہے یا حرام میں سے۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات بالکل سچی ثابت ہو رہی ہے لوگ حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر ہر قسم کا مال و متاع استعمال کر رہے ہیں۔مساجد و مدارس کی تعمیر،صدقہ و خیرات،حج و جہاد جیسے پاکیزہ کاموں میں حرام کی کمائی صرف کر رہے ہیں،حالانکہ مشرکین مکہ نے جب مسجد حرام کی تعمیر کی تو اس وقت ابو وہب بن عابد بن عمران بن مخزوم نے قریش سے کہا: تم اس مسجد کی تعمیر میں اپنے پاکیزہ مال سے ہی خرچ کرو اور اس میں زانیہ عورت کی کمائی،سودی رقم اور دیگر کسی قسم کے ظلم سے حاصل کی ہوئی رقم صرف نہ کرو۔ (فتح الباری 3/444) تعجب و حیرانگی ہے کہ مکہ کے لوگ مشرک ہو کر بیت اللہ کی تعمیر میں حرام کی کمائی ہوئی دولت صرف کرنے کو تیار نہیں جبکہ عصر حاضر میں لوگ مسلمان ہو کر حرام کی کمائی اپنی عبادات پر صرف کر رہے ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ خود پاک و صاف ہے اور پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےشک اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ صرف پاک چیز ہی قبول کرتا ہے اور بلاشبہ اللہ نے مومنوں کو اسی بات کا حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا ہے۔اللہ کا ارشاد ہے:اے رسولو!